Tuesday, 31 October 2017

Allah Meri Tauba By Allama Alam Faqri Pdf Urdu Book Free Download



اللہ میری توبہ 



علامہ عالم فقری


Allah Meri Tauba


Free download or read online Urdu Islamic free book Allah Meri Tauba study in this Islamic literature, Allama Alam Faqri told about the method for Tauba. He offered an ideal arrangement for the general population who need to win the joy of Allah. He clarifies that how a man can get the fellowship of Allah. The book is helpful for the conventional perusers. Allama Alam Faqri is the writer of the book Allah Meri Tauba. The book is about the lessons of Islam. At the point when a man apologizes for his detestable deeds, Allah acknowledges his conciliatory sentiment. He sends his innumerable gifts to his man. As indicated by Islamic lessons, this reason is called Tauba. Allah k  Hazoor Sachi Tauba Ke ki Rehnuma Urdu kutub. Total eleven chapter and 378 pages and pdf file size 7.5 MB. You also read Rohani Amliyat and Kahay Faqeer.

The following Chapters in this book:


  • Allah Meri Tauba
  • Hikayat e Tauba
  • Meri Toba
  • Sachi Tauba
  • Fazail Tauba
  • Walayat Aur Toba
  • Istakhfar
  • Maghfirat
  • Ambia A.S Ki  Tauba aur Istaghfar
  • Tauba K Rasty Main Rakwatian


Islamic Urdu Books PDF Free Download Pages

Islamic Urdu Books

Free Urdu books





Friday, 27 October 2017

قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے طوطے کی ویڈیو وائرل


طوطے نے سورۃ الاخلاص، سورۃالکوثر،سورۃ التکاثر اور دیگر چھوٹی آیات حفظ کررکھی ہیں،فوٹو:انٹرنیٹ
عمان: اردن کے خوش الحان قاری طوطے کی تلاوت ِ کلام پاک کی  ویڈیو سوشل میڈیا پر وائر ہوگئی۔
گھروں میں   طوطے عموماً پالے جاتے ہیں کیونکہ یہ انسان سے بہت جلد مانوس ہوجاتے ہیں اور ان کی عادات کو نوٹ کرکے اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔عمومی  طور پرپالتو طوطے  بہت زیادہ الفاظ نہیں سیکھتے اور وہ رٹے رٹائے چند جملے ہی دوہراتے رہتے ہیں لیکن اردن میں ایک ایسا طوطا ہے جس نے قرآن پاک کی چھوٹی سورتیں اور کئی آیات حفظ کرلی ہیں۔
اس طوطے کا نام مدلل ہے جسے اردن کے ایک شہری نے پالا ہے۔مدلل کی عمر تقریباً 7سال ہے اور اس  نے سورۃ الاخلاص، سورہ کوثر،سورۃ التکاثر اور دیگر چھوٹی سورتیں یاد کررکھی ہیں ۔طوطے کا مالک ایک ڈینٹسٹ ہے جو اپنے کام کی جگہ پراسے قرآنی آیات پڑھ پڑھ کرسناتا تھا جوب اب طوطے کو حفظ ہوچکی ہیں۔
قرآنی آیات کا حافظ اردنی طوطے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں وہ قرآن مجید کی تلاوت کرریا ہے۔سوشل میڈیا پر قاری طوطے کے خوب چرچے ہیں۔

Wednesday, 25 October 2017

اے ٹی ایم استعمال کرنے والے اسے ضرور پڑھیں اور فراڈ سے بچیں


سائبر لٹیرے اے ٹی ایم میں تبدیلی کرکے بھی آپ کو قیمتی سرمائے سے محروم کرسکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)
کراچی: پورے ملک میں نقد رقم نکلوانے کےلیے آٹو ٹیلر مشینوں (اے ٹی ایم) کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جہاں آپ اپنے ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم نکلوا سکتے ہیں لیکن اے ٹی ایم کا استعمال بھی خطرے سے خالی نہیں۔
عوام کو جدید طریقوں سے لوٹنے والے گروہ بڑی خاموشی سے اے ٹی ایم میں ایسی تبدیلیاں کردیتے ہیں جو آسانی سے محسوس نہیں ہوتیں لیکن انہی تبدیلیوں کے ذریعے یہ فراڈیئے آپ کو مطلوبہ رقم کے علاوہ پاس ورڈ اور دوسری حساس معلومات سے بھی محروم کرسکتے     ہیں۔
اگر آپ بھی کیش نکلوانے کےلیے اے ٹی ایم کا استعمال کرتے ہیں تو کچھ چیزوں پر توجہ دے کر اپنی محنت کی کمائی غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے بچا سکتے ہیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسے فراڈ میں زیادہ تر تین طرح کے خفیہ آلات استعمال کیے جاتے ہیں: اے ٹی ایم کارڈ کی مقناطیسی پٹی پر موجود (اکاؤنٹ ہولڈر کی) معلومات پڑھنے والا آلہ، خفیہ کیمرہ اور (اصل اے ٹی ایم جیسا) کی پیڈ تاکہ آپ کا پاس ورڈ چوری کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈارک ویب: انٹرنیٹ کی انڈر ورلڈ
اسکمر (skimmer):
یہ ایک ایسا جعلی آلہ ہوتا ہے جسے اے ٹی ایم کارڈ کی اصل سلاٹ کے بالکل اوپر، اس طرح نصب کیا جاتا ہے کہ یہ اے ٹی ایم کارڈ سلاٹ کو چھپا لیتا ہے۔ صارف اسی کو اصل سمجھتے ہوئے اے ٹی ایم کارڈ اس میں ڈال دیتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی اے ٹی ایم کارڈ اسکمر میں پہنچتا ہے تو یہ اس کی مقناطیسی پٹی پر موجود، صارف کی اہم معلومات اپنے اندر منتقل کرلیتا ہے۔
خفیہ کیمرا:
اسکمر کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا خفیہ کیمرا بھی اے ٹی ایم میں کسی ایسی جگہ نصب ہوسکتا ہے جہاں سے اے ٹی ایم کی پیڈ صاف دیکھا جاسکتا ہو۔ اس کا مقصد دراصل صارف کے اینٹر کیے ہوئے پن کوڈ سے واقفیت حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ یہ خفیہ کیمرا اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے کی پیڈ کے قریب یا اے ٹی ایم اسکرین کے اوپر کسی مقام پر نصب کیا جاسکتا ہے۔
جعلی کی پیڈ:
دیکھنے میں یہ بھی بالکل اصلی اے ٹی ایم کی پیڈ جیسا ہی ہوتا ہے جسے پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب کوئی صارف اس میں اپنا پن کوڈ اینٹر کرتا ہے تو یہ اسے اپنے اندر محفوظ کرلیتا ہے۔
سائبر لٹیرے آپ کی یہ قیمتی معلومات چوری کرکے نقلی اے ٹی ایم کارڈ بھی بناسکتے ہیں یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور طریقہ استعمال کرتے ہوئے، آپ کی لاعلمی میں آپ کو اچھی خاصی رقم سے محروم بھی کردیں۔
اے ٹی ایم میں کی گئی ان مکارانہ تبدیلیوں کا پتا چلانا اگرچہ بہت مشکل ہوتا ہے لیکن تھوڑی سی توجہ اور احتیاط کرکے آپ خود بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس میں کچھ گڑبڑ کی گئی ہے یا نہیں۔ اے ٹی ایم کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی کچھ نمایاں علامت ملاحظہ کیجیے:
اے ٹی ایم پر خراشیں، دراڑیں اور ایسی ظاہری علامات موجود ہوں جیسے اس میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہورہی ہو۔
اے ٹی ایم میں کچھ ایسی چیزیں بھی اضافی طور پر دکھائی دے رہی ہوں جن کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہ آتی ہو۔
اے ٹی ایم کی ساخت، اس کے مٹیریل، رنگ اور کناروں وغیرہ کا کچھ عجیب سا دکھائی دینا۔
اے ٹی ایم کارڈ سلاٹ جزوی طور پر اکھڑتی ہوئی محسوس ہو یا پھر وہ ناہموار ہو جبکہ ایسا ہونے کی کوئی ظاہری وجہ بھی موجود نہ ہو۔
اے ٹی ایم فراڈ سے بچنے کےلیے اضافی اقدامات یقیناً آپ کو زیادہ محفوظ بھی بنائیں گے:
اپنے بینک سے ایس ایم ایس الرٹ آن کروالیجیے تاکہ جب بھی آپ کے بینک اکاؤنٹ میں سے کوئی رقم نکلوائی جائے (یا جمع کروائی جائے) تو اس کی اطلاع فوری ایس ایم ایس کے ذریعے آپ تک پہنچ جائے۔ اس طرح اگر کوئی شخص آپ کی معلومات چوری کرکے آپ کے اکاؤنٹ سے رقم نکلوائے گا تو آپ کو فوراً اس کارروائی کی خبر ہوجائے گی اور آپ اپنے بینک کو کال کرکے اس کی اطلاع دے سکیں گے۔
پن کوڈ اینٹر کرتے وقت اپنی ایک ہتھیلی سے کی پیڈ کے اوپر پھیلادیجیے تاکہ اگر کوئی خفیہ کیمرہ نصب بھی ہو تو اسے یہ دکھائی نہ دے سکے کہ آپ کونسا پاس ورڈ استعمال کرتے ہوئے اے ٹی ایے سے رقم نکلوا رہے ہیں۔
کوشش کیجیے کہ مشہور بینکوں کی نصب کی ہوئی قابلِ بھروسہ اے ٹی اے ہی سے رقم نکلوائیں کیونکہ بعض مرتبہ پوری کی پوری جعلی اے ٹیم نصب کرکے بھی صارفین کے ساتھ فراڈ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی نامعلوم علاقے میں ہوں تو بہتر ہے کہ وہاں کے مقامی افراد سے پوچھ کر کسی قابلِ بھروسہ اے ٹی ایم کا رُخ کریں۔
اس کے علاوہ آپ اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال محدود کرکے، ایک وقت میں کم رقم نکلوا کر اور رقم کی آن لائن منتقلی کی حدود کم کرکے بھی اپنی رقم کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔

Monday, 23 October 2017

Aanchal Digest October 2017

Aanchal Digest October 2017 

read online or download PDF, monthly Anchal Digest, which is one of most famous ladies magazine in Pakistan, young girls and housewives are very fond of Aanchal Digest October 2017, this magazine contains vast collection of Urdu Novels, Romantic Urdu Novels, Urdu Stories, beauty tips, articles and much more, many Urdu Novels of Aanchal Digest are published in printed book format which are available in local book markets, current issue of Aanchal magazine is, Aanchal Digest October 2017.

Aanchal digest is published from Karachi in every month, since from many years. Readers of suspense digest are spread around the world, current era is full of technological devices and high speed internet, most of people are stop book reading day by day, and libraries are going to be quit, in this busy world PDF books contains worth, users can easily understand the PDF file. Monthly Aanchal digest is one of oldest monthly digest.
Water Mark Free Khawateen Digest October 2017 has been uploaded. Click Here to Download
In current scenario lot of free PDF books are waiting for good readers, physical library culture is almost end in our country,   now days people want to avail everything on his/her mobile smart phones and laptops,  in this case PDF Books are most reliable reading source. Digests are very safe family entertainment all the time in subcontinent, Urdu books, digests and magazines are very beautiful historical asset of  subcontinent muslims.  Many urdu writers were spend their whole lives to build great treasure of Urdu Books for our new generation which is really proud for us. Upcoming Aanchal digest is very interesting and contains variety of good reading stuff for readers.

You can read online or download Aanchal Digest October 2017 in PDF Format using below links. Your feedback and comments will help us to improve our Urdu Books collection.

Sunday, 22 October 2017

حد سے زیادہ کھانا بھی صحت کی ضمانت نہیں | Overeating is not guarantee for health


زیادہ کھانے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا لوگ صحت مند اور فربہ ہوں گے اور کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا
 سب سے پہلے اس نے ڈائٹنگ شروع کی ، کچھ عرصہ تو کھانا کم مقدار میں کھایا آہستہ آہستہ ہر وقت کھانا کھانے لگی ۔ بھوک ہر وقت ستائے رہتی ، جب بھی موقع ملا کچن میں گئی اور کچھ نہ کچھ کھا پی لیا ۔ دن میں کئی بار کھانا اور ساتھ ہی قے کا آجانا ، اب معمول بن گیا اور یہ بلائے جان بھی بن گیا ۔ اتنا زیادہ کھانے کے باوجود صحت کمزور ہوتی رہی ۔ ایسا کھانے پینے کی ایک نفسیاتی بیماری میں ہوتا ہے جسے Bulimia Nervosaکہتے ہیں ۔ اس بیماری میں تھوڑے وقت میں زیادہ کھایا جاتا ہے ۔ یہ زیادہ ترنوجوان لڑکیوں میں ہوتی ہے اور اونچی سوسائٹی کے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ برطانویشہزادی ڈیانا بھی کچھ عرصہ اس بیماری کا شکار رہی ۔
علامات :کھانے پینے کی اس نفسیاتی الجھن کو کھانے پینے کے انتشار کی بیماری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں پہلے بھوک سخت ستاتی ہے ۔ دل کرتا ہے جو سامنے ہو کھالیا جائے ، کچھ بھی نہ چھوڑا جائے ، اسی وجہ سے بندہ خوب کھاتا ہے ، لیکن فوراً ہی احساس ہوتا ہے کہ میں نے تو بہت زیادہ کھا لیا جس سے جسم موٹا اور بے ہنگم ہوجائے گا ۔ ایک عجیب سی بے چینی ہوجاتی ہے۔ فوراً دل کرتا ہے کہ قے آئے اور سارا کھانا نکل جائے ۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر بھوک لگتی ہے اور اس کے بعد پھر قے ۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اور ساری شخصیت برباد ہو کر رہ جاتی ہے ۔
علاج اور بچائو زندگی اور صحت بڑی نعمت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی زندگی دی ہے۔ اس کی صحیح حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ۔ صحت مند رہنے کے لیے صحیح غذا ایک اشد ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ اس اصول کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کھانا چاہیے نہ کہ کھانے کے لیے جیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں منزلیں اور راستے ہیں جن کے لیے توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیے۔ کھانے پینے کے شیڈول کے مطابق کھائیں۔ مقررہ وقت پر کھانا کھانے سے کوئی غذائی انتشار پیدا نہیں ہوتا اور بندہ چنگا بھلا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ جس کسی کو یہ نفسیاتی الجھن ہو وہ بالکل پریشان نہ ہو ۔ یہ بات طے ہے کہ اس سے آسانی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ کا نام لے کر اپنی قوت ارادی کو بروئے کار لائیں ۔ کھانے کے وقت خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر کھائیں ۔ آہستہ آہستہ اور بھوک رکھ کر کھائیں ۔ زیادہ مرغن غذائوں سے پرہیز کریں۔ انشاء اللہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ 

جرمنی سے97 لاکھ سال قدیم انسانی دانت دریافت | Oldest Human Fossilized Teeth

دریافت ہونے والے قدیم ترین انسانی دانت کے فوسل نے انسانی ارتقاکے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے،ماہرین آثار قدیمہ :فوٹوانٹرنیٹ
ایپلشیم: جرمنی کے ماہرین آثارقدیمہ نے دریائے رائن کی چٹانوں سے انسانی دانتوں کو دریافت کیا ہے جو 97 لاکھ سال قدیم ہیں۔
یہ انسانی دانت اب تک دریافت ہونےوالے انسانی فوسل میں سب سے قدیم ترین قراردیےگئےہیں جب کہ یہ انسانی فوسل قدیم یورپ اورایشیا میں بسنے والے کسی آثارسے مماثلت نہیں رکھتے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دریافت ہونے والے قدیم ترین انسانی دانت کے فوسل نے انسانی ارتقاکے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے نئی دریافت سے انسانی ارتقا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مددملے گی،ماہرین آثارقدیمہ کےمطابق  انسانی تاریخ افریقا سے شروع ہوئی لیکن حالیہ انسانی فوسل کی دریافت سے انسانی ارتقا کے حوالے سے نئی سوالات نےجنم لیا ہے۔
جرمنی کے مینزہسٹری میوزیم کے ماہرین آثارقدیمہ نے ایپلزئیم شہرکے دریائے رائن کی چٹانوں سے ان انسانی دانتوں کو دریافت کیا۔ ڈاکٹرہربرٹ لوٹس کی سربراہی میں کام کرنے والے ماہرین کے مطابق دریافت ہونے والے قدیم دونوں دانتوں میں ایک اوپربائیں جانب کا ہے اور دوسرا اوپری حصے کے دائیں جانب کا ہے دونوں دانت غیر معمولی طور پر محفوظ ہیں جب کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ دانت عورت کےہیں یا مردکے۔
ڈاکٹرہربرٹ کاکہنا ہے کہ قدیم انسانی دانتوں کی دریافت ایک نئی جستجو کا آغاز ہے جو اپنے ساتھ بہت سارے راز لئے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دریافت شدہ انسانی فوسل کی مماثلت ایتھوپیا سے دریافت ہونےوالے32 لاکھ سال پرانے انسانی ڈھانچے سے ملتی ہے لیکن دانتوں کا یہ فوسل ایتھوپیا سے دریافت ہونے والے ڈھانچے سے بہت  قدیم  ہے۔

Saturday, 21 October 2017

Ashab e Suffa Urdu Islamic Book by Maulana Ashiq Ilahi PDF Download



اصحاب صفہ 



مولانا عاشق الہی


Ashab e Suffa Urdu

Enjoy another best Islamic book in Urdu. Title name Ashab Suffa of this Urdu book written by Maulana Mufti Mohammad Ashiq Ilahi Bulendshehri. He is famous Islamic literature writer from Pakistan, he writes many Islamic books. The story of Ashab al-Suffa is a common name for youthful, unmarried and poor natives who stayed in Suffas, which was built up by the Islamic prophet Muhammad S A W beside Masjid a Nabavi.The Ashab us-Suffah were mates of the Rasool Allah Mohammad (peace and blessings of Allah be on him). Ashab us-Suffa is a combination of two Arabic words, Ashab means masters or friends and suffa mean veranda or shed also called (The People of the Bench).The Message of Rasul Allah Muhammad PBUH Allah has created everything. Now get PDF formats copy of this book from the end of the post. You may be download Seerat-e-Ayesha R.A and Sahaba Karam R.A K Rafahi Kam.



Ashab Suffa


Islamic history Urdu

Hina Digest October 2017

Hina Digest October 2017

Hina Digest October 2017

Read online or download in PDF format for offline reading. Monthly Hina Digest October 2017 which is one of most famous ladies magazine in Pakistan, women are very fond of Hina Digest October 2017, this magazine contains vast collection of Urdu Novels, Romantic Urdu Novels, Urdu Stories, beauty tips articles and much more, Urdu Novels of Hina digest are published in printed book format which are available in local book markets. Current issue of Hina magazine is, Hina Digest October 2017.

Hina Digest October 2017 PDFyou can read online or download in PDF Format using below links. Your feedback and comments will help us to improve our Urdu Books and novels collection.

Friday, 20 October 2017

Qaumi Sehat Magazine April 2017 Qarshi Dawakhana Free Download PDF



قومی صحت رسالہ




Qaumi Sehat April 2017



Qaumi Sehat Magazine is the Pakistani Tibi and Hikmat Urdu magazine published by Qarshi industry ltd.free download pdf copy or reads online Qaumi Sehat Magazine April 2017, Tibi sehat aur qudarti adviyat ki malomat ka qabil ahtmad zarya. Read in this magazine about health tips in Urdu or Tibi Mashwari and how to care liver, Strawberry benefits for human, drinking water and cold drinks, black papers benefits in Urdu, health tips,  Alvira use for beauty, Qarshi products Mashroobat, fake medicine and human health now get free pdf copy this magazine from this online ebooks library total 60 pages and download file size 4.4 MB. You may read Qaumi Sehat Agust 2015 and Ghizahian aur Dawain.


Tibi and Hikmat Urdu Magazine:

 The following topics in this literature:

  • Gurdon ko nakara hone se bachya jasak te
  • Dars e Hadith
  • Siya Mirch (black paper) Kahe Bemarion se Shifa
  • Strawberry Jisam Insani per asraat
  • Peene ka pani aur kola mashroobat
  • Gao Zuban Adwiyati Khasoosiat
  • Amraz Damag wa Ahzab
  • Tibi Mashwary (Heath tips)
  • Alvira Koobsoorati (Beauty) ke leye jadue poda
  • Bachoon par Mobile phone k bure asrat
  • Polan Allergy se kesian bachian 
  • Qarshi K Mashroobat
  • Jali Adwiyat aur Insaniat

health tips in urdu

Wednesday, 18 October 2017

Parda by Syed Abul Ala Maududi History and Rights Of Women Book


پردہ

سیدابوالاعلی مودودی



Parda by Syed Abul Ala Maududi

Free download pdf copy best selling and very famous Islamic Urdu Book of Woman Parda written by Syed Abu Ala Maudoodi R. A published by Islamic Publication Lahore Pakistan. This literature is also published in Tarjuman ul Quran magazine in many episodes. Read this book about Women in Islam and different civilizations, culture and society author write the brief history of woman and family system. Rulings for women, dress code and Historic view of women problems and difficulties and the rights of women in Islam. Syed Abu Ala Maudoodi most famous Islamic scholar he writes many Islamic books in Urdu and translated into many languages published in the worldwide he author of bestselling books now download or read online from this online library. This book as long as 361 pages and pdf file size 4.9 MB. You may study Safarnama Arazul Quran and Khilafat o Malookiat.

The following Urdu topics in this book 
  • Aurat Mukhtalaf Adwar Main  (Woman in Different Civilization) 
  • Daor e Jadeed Ka Musalman  (Modern Muslim)
  • Nazariath (Theories) 
  • Result (Nataij)
  • Chand Aim Misalain (Some Common Examples) 
  • Fiasla Kun Sawal
  • Qawaneen Fitrat (Natural Laws)
  • Insani Galtian (Human Mistakes)
  • Islamic Society System
  • Pardah Ke Ahkam 
  • Bahir Nikalne Qawaneen (Islamic Law for Women traveling)
  • Hijab The history of a woman in Islam and Different Civilization 

Right of Woman in Islam and Other Civilization and Society

The writer says about this book in the first Edition: 
I wrote articles on Islamic Hijab Prada Issues four years ago, Published in Tarjumanul Quran at the time both talking subjects was ignored. Because I wanted just write an article.Now, these articles are being published in a booklet. You will find trustworthy content and arguments in this book.

Transaltion in Roman Urdu:

Parday ke masle par ab se char sal phele me ne aik sisila mazamin lika ta jo "Tarjuman ul Quan" ke Kahe shumaroon me shaya huwa tha. Us waqt bes ke baz  goshe qasadan nazar andaz kar deye gahe thy. Kyun k Kitab bajae mehz aik mazmoon likna tha. Ab in mazameen ko yakja kar ke aik kitabi shakal me publish kya ja raha hay. aap is kutub me ahtmad bakhsh mawad aur dalael pahe gain.  

Syed Abul Ala Maududi
Islamic Hijab Books

Shuaa Digest October 2017

Shuaa Digest October 2017
Shuaa Digest October 2017 read online or download PDF, monthly Shuaa Digest, which is one of most famous ladies magazine in Pakistan, young girls and house wives are very fond of Shuaa Digest October 2017, this magazine contains vast collection of Urdu Novels, Romantic Urdu Novels, Urdu Stories, beauty tips, articles and much more, many Urdu Novels of Shuaa Digest are published in printed book format which are available in local book markets, current issue of Shuaa magazine is, Shuaa Digest October 2017.
Shuaa digest is published from Karachi in every month, since from many years. Readers of suspense digest are spread around the world, current era is full of technological devices and high speed internet, most of people are stop book reading day by day, and libraries are going to be quit, in this busy world PDF books contains worth, users can easily understand the PDF file. Monthly Shuaa digest is one of oldest monthly digest.
In current scenario lot of free PDF books are waiting for good readers, physical library culture is almost end in our country,   now days people want to avail every thing on his/her mobile smart phones and laptops,  in this case PDF Books are most reliable reading source. Digests are very safe family entertainment all the time in subcontinent, Urdu books, digests and magazines are very beautiful historical asset of  subcontinent muslims.  many urdu writers were spend their whole lives to build great treasure of Urdu Books for our new generation which is really proud for us. Upcoming Shuaa digest is very interesting and contains variety of good reading stuff for readers.
You can read online or download Shuaa Digest October 2017 in PDF Format using below links. Your feedback and comments will help us to improve our Urdu Books collection.
PDF File Size : 40 MB
Total Pages : 275

 Tum Akhri Jazeera Ho

Monday, 16 October 2017

دنیا میں انسانوں کے لیے سب سے مہلک جاندار

آج تک انسان اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کے سہارے کا محتاج ہے 
قدرت نے ہر ذی روح کی جبلت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر جس چیز کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کی اپنی جان ہے۔
حیوانات میں جسمانی ساخت کے لحاظ سے انسان ایک کمزور حیثیت رکھتا ہے۔اسی لیے غاروں میں رہنے کے دور سے لے کر آج تک انسان اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کے سہارے کا محتاج ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خطرے کے وقت دیگر جاندار اپنی جسمانی طاقت یا کسی اور قدرتی صلاحیت کے سبب اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہاں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ انسان کے علاوہ ہر حیوان یا جاندار صرف خطرے کی صورت میں یا بھوک سے مغلوب ہوکر ہی کسی دوسرے جاندار پر حملہ آور ہوتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل سے نوازا ہے جس کے بل بوتے پر وہ جسمانی طور پر اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھنے والے جانوروں سے نہ صرف اپنی حفاظت کرنے بلکہ ان پر قابو پانے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
بین الاقوامی اداروں نے کچھ اعدادو شمار مرتب کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ سالانہ اوسط کے حساب سے کون کون سے جاندار انسانوں کے لیے کتنے کتنے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔قارئین کی دلچسپی کے لیے آئیے ایک نظر اس فہرست پر ڈالتے ہیں۔

-20 گھڑیال


یہ مگر مچھ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی دو اقسام اس وقت موجود ہیں۔ ایک قسم امریکی گھڑیال کہلاتی ہے اور دوسری چینی گھڑیال۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ جاندار آج سے تقریباً چھیاسٹھ ملین سال قبل روئے زمین پر نمودار ہوا۔ ایک امریکی گھڑیال اوسطاً تیرہ فٹ لمبا اور تین سو ساٹھ کلو گرام وزنی ہوتا ہے۔ یہ گوشت خور جانور ہے اور عموماً مچھلیاں، کچھوے، پرندے اور دیگر رینگنے والے جاندار کھاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات چھوٹے جانور جیسے ہرن وغیرہ بھی اس کا لقمہ بن جاتے ہیں۔
گھڑیال سالانہ ایک انسان کی جان لیتے ہیں۔

-19 شارک


شارک مچھلیوں کی خطرناک اقسام میں شامل کی جاتی ہے۔ اس کی خونخواری ضرب المثل ہے۔ یہ اپنے نوکیلے دانتوں اور خوفناک جبڑے کی وجہ سے مشہور ہے۔ کچھ دہائیوں قبل شارک پر بننے والی انگریزی فلم ’’Jaw‘‘ نے اتنی شہرت حاصل کی کہ پھر اس کا دوسرا حصہ بھی بنایا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شارک چار سو بیس ملین سال قبل اس عالم رنگ و بو کا حصہ بنی۔ شارک کی سب سے چھوٹی قسم ’’ڈوارف لینٹرن شارک‘‘ کہلاتی ہے جو صرف سترہ سینٹی میٹر یعنی تقریباً چھ اعشارہ سات انچ لمبی ہوتی ہے جبکہ ’’وہیل شارک‘‘ نامی شارک دنیا میں سب سے بڑی شارک ہے جس کی لمبائی تقریباً چالیس فٹ تک ہوتی ہے۔ شارک دنیا کے تمام ہی سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ عام طور پر شارک میٹھے پانی میں زندہ نہیں رہتی مگر اس کی کچھ اقسام جیسے ’’بل شارک‘‘ اور ’’دریائی شارک‘‘ میٹھے پانی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی کچھ مشہور اقسام گریٹ وائٹ شارک، ٹائگر شارک، بلیو شارک اور ہیمپر ہیڈ شارک وغیرہ ہیں۔ شارک کی اوسط عمر بیس تا تیس سال ہوتی ہے۔
یہ خطرناک مچھلی سالانہ پانچ انسانی زندگیوں کا خاتمہ کرتی ہے۔

-18 بھیڑیے


بھیڑیوں کی سب سے مشہور قسم ’’گرے وولف‘‘ کہلاتی ہے جو شمالی امریکہ اور یورواشیا میں پائی جاتی ہے۔ اس کے نر کا وزن اوسطاً تنتالیس سے پنتالیس کلو گرام اور مادہ کا چھتیس سے اٹھتیس کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اس کی ایک قسم ’’ریڈ وولف‘‘ بھی ہے۔ سرد علاقوں میں پائے جانے والے بھیڑے کے جسم پر لمبے اور گھنے بالوں والی ’’فر‘‘ ہوتی ہے جو بہت قیمتی ہوتی ہے۔ یہ جنگوں میں گروہ کی صورت میں رہتے ہیں اور شکار کرتے ہیں۔ ان کی سفاکی مشہور ہے اور کہا جاتا ہے کہ سرما کے طویل موسم میں جب انہیں شکار نہیں ملتا تو یہ ایک دائرہ بناکر بیٹھ جاتے ہیں اور چوکنے ہوکر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہتے ہیں، جیسے ہی کسی کمزور بھیڑیے کی آنکھ جھپکتی ہے تو باقی بھیڑیے اس پر پِل پڑتے ہیں اور اس کی تکہ بوتی کرکے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں پورے چاند کی رات ان کی لمبی ’’ہووووو‘‘ کی آوازیں ماحول کو عجیب دہشت زدہ سا بنادیتی ہیں۔ ایک روایتی داستان کے مطابق کچھ لوگ پورے چاند کی رات بھیڑیے بن جاتے ہیں۔ ایسے انسان کو ’’ویئر وولف‘‘ کہتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سے ناول بھی لکھے گئے اور فلمیں بھی بنیں۔
بھیڑیے ایک سال میں دس افراد کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔

-17 گھوڑے


گھوڑے اور انسان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ گھوڑا قدیم دور سے نہ صرف سواری بلکہ بار برداری اور کھیلوں کیلئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں بگھی اور ہمارے یہاں برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر تانگہ، ایک روایتی سواری کے علاوہ موٹر گاڑی کی ایجاد سے پہلے امراء کے مرتبے کے اظہار کا ایک ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ گھوڑا طاقت اور سطوت کا نشان تصور کیا جاتا ہے لیکن گھوڑوں کا سب سے بہترین استعمال جنگوں میں ہوتا تھا اور کسی بھی فوج کا جزلاینفک ہوتے تھے۔ آج کے جدید دور میں بھی گھوڑا فوجی مقاصد کے استعمال کیلئے ایک قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری زمین پر گھوڑوں کا ارتقاء آج سے تقریباً پینتالیس سے پچپن ملین برس قبل ہوا۔ انسانوں نے گھوڑوں کو تقریباً چار ہزار قبل مسیح میں پالنا شروع کیا۔ اس کی اوسط عمر پچیس سے تیس سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کا قد ایک سو بیالیس تا ایک سو تریسٹھ سینٹی میٹرز اور وزن تین سو اسی سے پانچ سو پچاس کلو گرام تک ہوتا ہے۔ چھوٹے قد کی نسل والے گھوڑے کو ’پونی‘ کہتے ہیں۔ آج بھی کسی موٹر یا انجن کی طاقت کو ماپنے کا پیمانہ ’’ہارس پاور‘‘ کہلاتا ہے۔ قدیم ادب میں دو پروں والے، اڑن گھوڑے کا ذکر بھی ملتا ہے۔
بدقسمتی سے اس انسان دوست جانور کے ہاتھوں بھی ہر سال بیس انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

-16 چیتے


بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور زمین پر سب سے تیز رفتار رکھنے والا جاندار ہے۔ یہ چند ہی لمحوں میں ایک سو بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر مشرقی اور جنوبی افریقہ میں پایا جاتا ہے جبکہ ایران کے کچھ علاقے اور جنوبی ایشیا بھی اس کا مستقرہیں۔ اس کی ایک قسم برفانی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے جسے سفید چیتا کہتے ہیں۔ یہ دن میں شکار کرتا ہے اور عموماً ہرن اور غزال اس کا شکار بنتے ہیں جنہیں یہ ایک تیز اور طویل تعاقب کے بعد اپنا نشانہ بناتا ہے۔
چیتے سالانہ انتیس افراد کی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔

-15 چیونٹیاں


ننھی منی سی یہ مخلوق ہماری زمین پر تقریباً ننانوے ملین سال سے موجود ہے۔ اس کی کل بائیس ہزار میں سے ساڑھے بارہ ہزار اقسام شناخت کی جاچکی ہیں۔ یہ زمین کے اندر بل بناکر رہتی ہیں۔ ان کے بلوں میں باقاعدہ منظم کالونیاں قائم ہوتی ہیں جن میں یہ مختلف طبقات میں بٹی، آباد ہوتی ہیں اور اپنے اپنے فرائض انتہائی تندہی سے سرانجام دیتی ہیں۔ ان طبقات میں مزدور، فوج اور حکمران چیونٹیاں شامل ہیں۔ گھریلو چیونٹیوں کے علاوہ ان کی ایک قسم جنگلی چیونٹی بھی ہوتی ہے جو زہریلی ہوتی ہیں اور اپنی کثرت تعداد کی بدولت بڑے بڑے جانداروں کے لیے ہلاکت خیز بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ انٹارکٹیکا، گرین لینڈ اور آئس لینڈ کے علاوہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ یہ واحد غیر ممالیائی جاندار ہے جس میں سیکھنے کے عمل کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ قطار کی شکل میں سفر کرتی ہیں اور آپس میں ان کا تعاون مثالی ہے۔
چیونٹیاں ایک سال میں تیس انسانوں کو مار ڈالتی ہیں۔

-14 جیلی فش


یہ چپچپا اور نرم جسم رکھنے والا ایسا آبی جاندار ہے جو سمندر میں آزادانہ تیرتا پھرتا ہے۔ اس مچھلی کی شکل چھتری جیسی ہوتی ہے جس کے ساتھ پھولوں کی پتیوں کی طرح کی لڑیاں سی لٹک رہی ہوتی ہیں۔ یہ دھڑکن نما حرکت کے ذریعے تیرتی ہے۔ اس کے ساتھ لٹکنے والی لڑیاں شکار پکڑنے کے کام آنے کے علاوہ اپنے زہریلے پن سے اس کو دشمن سے بھی بچاتی ہیں۔ یہ دنیا کے ہر سمندر میں سطح سے لے کر گہرائی تک پائی جاتی ہیں۔ اس کی کچھ اقسام تازہ پانی میں بھی ملتی ہیں۔ یہ مختلف رنگوں سے مزین اور دیکھنے میں بہت خوبصورت نظر آتی ہے۔ یہ دنیا کے سمندروں میں گزشتہ تقریباً پانچ سو سے سات سو ملین سال سے موجود ہیں۔ یہ معروف معنوں میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والی مچھلی نہیں ہے۔ اس کے جسم کا چھتری نما حصہ تقریباً ایک ملی میٹر اونچا یا موٹا ہوتا ہے جبکہ اس کا قطر ساڑھے چھ فٹ تک ہوسکتا ہے۔
سالانہ چالیس افراد ان کے باعث لقمہ اجل بنتے ہیں۔

-13 مکھیاں

عام گھریلو مکھیوں اور شہد کی مکھیوں اور ان کے ڈنگ سے کون واقف نہیں؟ سب لوگ ہی گھریلو مکھیوں سے تنگ اور شہد کی مکھیوں کے بنائے گئے شہد سے مستفید ہوتے ہیں۔ دنیا میں مگر شہد کی مکھیوں کے علاوہ بھی مکھیوں کی کچھ ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو کاٹتی ہیں۔ ذیل میں ان کا تعارف درج ہے۔
(i) ڈیئرفلائی۔
 یہ براعظم امریکہ میں پائی جاتی ہے اور اس کے کاٹنے سے بخار ہوجاتا ہے جسے ’’ریبٹ فیور‘‘ کہتے ہیں۔ یہ براہ راست اس مکھی کے کاٹنے سے بھی ہوسکتا ہے اور بلاواسطہ طور پر اس مکھی کے کاٹے ہوئے کسی متاثرہ جانور سے بھی۔ یہ تقریباً چوتھائی انچ لمبی ہوتی ہے اور اس کی افزائش موسم بہار میں ہوتی ہے۔
(ii) ہارس فلائی:
 یہ ایک انچ یا اس سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ ان میں چند بالکل کالے رنگ کی ہوتی ہیں اور دیگر ہلکے کتھئی رنگ کی، جنہیں ’’گرین ہیڈز‘‘ کہلا جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں چمکدار سبز رنگ کی ہوتی ہیں۔ ان کا منہ قینچی نما ہوتا ہے جس سے یہ جلد پر کاٹ کر نکلنے والے خون کو چاٹ جاتی ہیں۔ ان کا کاٹنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ اور مکھیوں کی نسبت جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر مویشی اور دوسرے جانوروں کے خون پر پلتی ہیں۔ ان کی طبعی عمر عموماً دو سال تک ہوتی ہے۔
(iii) سٹیبل فلائی:
 یہ تقریباً چوتھائی انچ لمبی ہوتی ہے اور اس سر کے پیچھے گہرے رنگ کی چار دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ عام گھریلو مکھی کی طرح کی ہی ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس کے سر کے نیچے نشاندار سونڈیں ہوتی ہیں، جن کے ذریعے وہ خون چوستی ہے۔
یہ موسم گرما کے آخر اور خزاں کے شروع میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ یہ مویشی، پالتو جانوروں اور انسانوں کا خون پینے کے لیے کئی میل کا سفر کرسکتی ہیں۔ یہ عام طور پر علی الصبح یا غروب آفتاب کے بعد کاٹتی ہیں اور ان کا نشانہ کسی بھی جاندار کا ٹخنہ ہوتا ہے۔ ان کے کاٹنے سے شدید درد ہوتا ہے۔ یہ گلی سڑی سبزیوں یا گھاس پھوس پر انڈے دیتی ہیں۔
(iv) بلیک فلائی:
 یہ زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ ان کی لمبائی بمشکل ایک انچ کا آٹھواں حصہ ہوتی ہے۔ ان کے پر بڑے ہوتے ہیں اور پیٹھ پر ایک ’کب‘ سا نکلا ہوتا ہے۔ یہ خون کی تلاش میں دس میل تک کا سفر کرسکتی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے کسی بیماری کا خدشہ نہیں ہوتا۔ یہ موسم بہار کے آخر یا موسم گرما کے اوائل میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے بننے والا زخم دیر سے ٹھیک ہوتا ہے اور سوجن اور خون کے زیادہ رساؤ کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ زیادہ تر سر، گردن یا جسم پر اس جگہ پر کاٹتی ہیں جہاں کپڑے تنگ ہوں۔
(V) بائٹنگ میج:
 یہ کافی چھوٹی ہوتی ہیں۔ ان کی لمبائی ایک انچ کا بتیسواں حصہ ہوتی ہے۔ انہیں ’’پنکیز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے چھوٹے حجم کی وجہ سے ہر جگہ سے گھروں میں داخل ہوجاتی ہیں۔ ان کی کچھ اقسام انسانوں اور دیگر اقسام کے مچھروں سمیت دوسرے حشرات الارض کا خون چوستی ہیں۔
(vi) سینڈفلائی:
 ان کی چند اقسام دودھ دینے والے جانداروں، رینگنے والے جانوروں اور ایسے جانداروں کے خون پر پلتی ہیں جو پانی اور خشکی دونوں جگہوں پر رہتے ہیں۔ یہ عموماً رات کوکاٹتی ہیں۔ یہ اکثر علاقوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔
مکھیاں سال بھر میں تریپن جانیں لیتی ہیں۔

-12 بارہ سنگھے


یہ ہرنوں ہی کی ایک قسم ہوتے ہیں مگر یہ دنیا کے سرد علاقوں جیسے قطب شمالی، شمالی یورپ کے پہاڑی سلسلے، سائبیریا اور شمالی امریکہ وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ مسیحیوں کے تہوار کرسمس کے ایک روایتی کردار ’’سانتا کلاز‘‘ کے رتھ میں بھی ایک بارہ سنگھا جتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ اس کا ذکر ساڑھے تین ہزار سال پرانے ادب میں بھی ملتا ہے۔
یہ سال بھر میں ساٹھ افراد کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔

-11 افریقی جنگلی بھینسا


یہ زیادہ تر جنوب مشرقی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے سر پر بڑے بڑے خم دار سینگ ہوتے ہیں جو اس کی دہشت میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کا شمار بہت خطرناک جانوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا گھریلو مویشیوں سے کوئی نسلی تعلق نہیں ہے۔ خونخوار جانوروں میں سے ان کا شکار کرنے کی طاقت صرف شیروں اور مگرمچھوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات ان کی بے پناہ طاقت کے سامنے ان شکاریوں کی بھی ایک نہیں چلتی بلکہ بعض دفعہ تو الٹا لینے کے دینے بھی پڑجاتے ہیں۔
یہ ریوڑ کی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی اونچائی ساڑھے تین سے ساڑھے پانچ فٹ اور لمبائی ساڑھے پانچ سے گیارہ فٹ تک ہوتی ہے اور وزن ساڑھے تین سو سے ایک ہزار کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ یہ کالے یا گہرے کتھئی رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ ان کی مادہ کے رنگ میں ہلکی سی سرخی پائی جاتی ہے۔ ایک جوان جنگلی بھینسے کے دونوں سینگوں کی نوکوں کا درمیانی فاصلہ ایک میٹر تک ہوتا ہے۔
یہ ایک سال میں دو سو افراد کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

-10 شیر


شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے۔ زمین پر ان کے ارتقا آٹھ سے دس لاکھ سال قبل ہوا۔ ان کی اوسط عمر دس سے چودہ سال ہوتی ہے اور وزن ڈھائی سے تین سو کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔کمزور،بوڑھا یا زخمی ہوجانے پر اکثر یہ آدم خور بھی بن جاتا ہے۔
یہ سالانہ ڈھائی سو انسانوں کو چیرپھاڑ دیتا ہے۔

-8 ہاتھی


ہاتھی، زمین پردودھ پلانے والے جانداروں میں سب سے عظیم الجثہ جانور ہے۔ (وہیل مچھلی بھی دودھ پلانے والا جاندار ہے اور وہ حجم میں ہاتھی سے کئی گنا بڑی بھی ہوسکتی ہے، مگر وہ آبی جاندار ہے) ہاتھی کی تین اہم اقسام ہیں۔ ان میں ’’افریقی بش ایلیفینٹ‘‘، افریقن فاسٹ ایلیفینٹ‘‘ اور ’’ایشین ایلیفینٹ‘‘ شامل ہیں۔ یہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی لمبی سونڈ وہ شناخت ہے جو اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس سونڈ سے یہ کئی کام لیتا ہے۔ اس کی خوراک مختلف نباتات ہیں۔ ان کی اوسط عمر ستر سال تک ہوتی ہے۔ ماضی میں انہیں جنگوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کے دانتوں سے ہتھیار، زیور اور دیگر بہت سی آرائشی چیزیں بھی بنتی ہیں۔

-9دریائی گھوڑے

دریائی گھوڑا اپنی دنیا میں مست رہنے والا جانور ہے۔ بظاہر سست نظر آنے والے اس جانور کے مزاج کے خلاف جب کوئی چیز ہوجائے تو پھر غصے میں اس کا جارحانہ ردعمل دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا شمار بھی دودھ دینے والے بڑے جانداروں میں ہوتا ہے۔ دریائی گھوڑے زمین پر تقریباً ساٹھ ملین سال سے موجود ہیں۔ ان کا وزن اوسطاً تیرہ سو سے لے کر پندرہ سو کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اپنے بھاری بھرکم وجود کے باوجود یہ محدود فاصلے تک تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ اس کا بڑا منہ اور بھیانک جبڑے اس کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔
پانچ سو افراد ہاتھیوں اور دریائی گھوڑوں کا نشانہ
بن کر جان سے جاتے ہیں۔

-7 مگر مچھ


اس کا شمار ان رینگنے والے جانداروں میں ہوتا ہے جو پانی اور خشکی، دونوں جگہوں پر رہتے ہیں۔ یہ افریقہ، ایشیا، امریکہ اور آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی خوراک، مچھلیاں، پرندے اور دوسرے چھوٹے چوپائے جیسے ہرن وغیرہ ہے۔ ان کا ارتقاء تقریباً پچپن ملین سال پہلے ہوا۔ اس کے خوفناک جبڑے اور نوکیلے دانت اس کی طاقت کا مظہر ہیں لیکن اس کی طاقت کا ایک منبع اس کی لمبی دم بھی ہے۔ اس کی زبان آزادانہ طور پر حرکت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے منہ میں موجود جھلی اس کی زبان کی حرکت کو محدود کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
اس کے جسم کا سب سے نازک حصہ اس کے پیٹ کی ہموار جلد ہے۔ مگر مچھ کی لمبائی پانچ فٹ سے تیس فٹ اور وزن ایک ہزار کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کے برعکس یہ اپنی پینتیس سے پچھتر سالہ زندگی میں اسی (80) بار اپنے پرانے دانت تبدیل کر کے نئے دانت پھر دوبارہ نکال سکتا ہے۔ یہ اپنی آنکھیں، کان اور نتھنے سر کے سب سے اونچے حصے پر ہونے کے باعث اپنے سارے جسم کو پانی کے اندر چھپا کر رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے اس کا شکار آخری وقت تک اس کی موجودگی سے بے خبررہتا ہے۔ اس کی نظر، قوت سماعت اور قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ کافی طویل عرصہ بغیر خوراک کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ پانی سے باہر بھی کافی تیزی سے حرکت کرسکتا ہے۔ اس کی مادہ خشکی پر انڈے دیتی ہے جنہیں مٹی اور جھاڑ جھنکار سے ڈھانپ دیتی ہے۔ قدیم مصری تہذیب میں مگر مچھ کو مذہبی تقدس بھی حاصل تھا۔ مختلف زبانوں میں ’’مگر مچھ کے آنسو‘‘ کا محاورہ بھی مستعمل ہے۔ اس کی کھال سے بٹوے، جیکٹس اور دیگر ایسی اشیاء بنتی ہیں۔ دیو مالائی کہانیوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔
مگر مچھ ایک سال میں ایک ہزار انسانوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔

-6 کیچوے یا ٹیپ وارمز


یہ طفیلی کیڑے ہوتے ہیں جو غذا یا پالتو جانوروں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور چھوٹی آنت میں قیام پذیر ہوکر افزائش نسل کرتے ہیں۔ یہ شروع میں ایک چھوٹے سے چپٹے ٹکڑے کی طرح ہوتے ہیں۔ سر والے حصے کو چھوڑ کر باقی جسمانی ٹکڑے کو ”Progiottids” کہا جاتا ہے۔ یہ ٹکڑے ساڑھے تین ملی میٹرز تک لمبے ہوسکتے ہیں۔ ہر ٹکڑا اپنی دم میں موجود انڈوں کے ذریعے افزائش نسل کرتے ہوئے ٹکڑے سے ٹکڑے بناتا چلا جاتا ہے اور یوں ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ آج تک سب سے لمبے ٹیپ وارم کی لمبائی بیاسی فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان کی عمر تیس سال تک ہوسکتی ہے۔
اپنی پیدا کردہ انفکشن کی وجہ سے سالانہ دو ہزار سے
ڈھائی ہزار جانیں لیتے ہیں۔

-5 بچھو


اس موذی جاندار سے کون واقف نہیں؟ یہ اپنے زہریلے پن اور ہرجائی طبیعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی رنگ، حجم اور علاقائی تقسیم کے حساب سے مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ خطرناک کالا بچھو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی آٹھ ٹانگیں اور خم دار دم میں زہریلا ڈنگ چھپا ہوتا ہے۔ بچھو ایک انچ کے تہائی حصے سے لے کر نو انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ یہ کرۂ ارض پر تقریباً چار سو تیس ملین سال سے موجود ہے۔ اس کی اب تک سترہ سو پچاس اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے پچیس اقسام اتنی زہریلی ہوتی ہیں جو کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہیں۔ اس کے کاٹنے سے بے تحاشہ تکلیف ہوتی ہے۔ یہ براعظم انٹارکیٹکا کے علاوہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔
ایک سال میں تین ہزار دو سو پچاس افراد بچھوؤں کا
شکار بن کر جان سے جاتے ہیں۔

-4 کتے


کتے کی وفاداری مشہور ہے۔ بھیڑیے کی نسل سے تعلق رکھنے والے اس جاندار کو لوگ شوق سے گھروں میں پالتے ہیں۔ انسان ان سے شکار اور رکھوالی سمیت کئی کام لیتے ہیں۔ یہ اتنا عقلمند جانور ہے کہ اپنے مالک کی آنکھ کا اشارہ بھی سمجھ لیتا ہے اور اس کے احکامات پر بلا چوں چرا عمل کرتا ہے۔ آج کے جدید دور میں پولیس اور فوج کتوں سے کھوجی کا کام بھی لیتی ہیں۔ الاسکا جیسے برفانی علاقوں میں یہ برفانی گھاڑی کھینچنے کے کام بھی آتا ہے۔ اس کی کچھ اقسام بہت خوفناک جبکہ چند ایسی بھی ہیں جن کی خوبصورتی اور معصومیت دلوں کو موہ لیتی ہے۔ مغربی ممالک میں تو اس انسان دوست جانور کو گھر کے فرد کا سا درجہ حاصل ہے۔
اس کے ارتقائی سفر کی تاریخ تو اتنی واضح نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ یہ وہ پہلا جانور ہے جس کو انسان نے پالتو حیثیت میں اپنایا۔ آج سے تقریباً چودہ ہزار سات سو سال سے لے کر چھتیس ہزار سال تک کی اس کی باقیات، انسانی باقیات کے ساتھ مدفن پائی گئی ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق اب تک دنیا کا سب سے چھوٹا کتا ’’یورک شائر ٹریئر‘‘ تھا جو محض ڈھائی انچ اونچا اور پونے چار انچ لمبا تھا۔ اس کا وزن فقط ایک سو تیرہ گرام تھا جبکہ سب سے بڑا کتا ’’انگلش مسٹف‘‘ تھا۔ جس کا وزن ایک سو چھپن کلو گرام اور لمبائی تقریباً آٹھ فٹ تھی۔ سب سے اونچا کتا ’’گریٹ ڈین‘‘ ساڑھے تین فٹ اونچا تھا۔ کتے کی دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور محسوس کرنے کی حسیں بہت تیز ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ زمین کے مقناطیسی میدان کی لہروں کو بھی محسوس کرسکتا ہے۔ اس کی اوسط عمر دس تا تیرہ سال ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں ان کی آبادی کا اندازہ تقریباً نو سو ملین ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کا ذکر دیو مالائی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ قدیم یونانی ادب سمیت دنیا بھر کے ادب میں ان کا ذکر موجود ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس انسان دوست جانور کے ہاتھوں بھی ایک سال میں پچیس ہزار افراد کی زندگیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

-3 سانپ


یہ ایک لمبااور بغیر ٹانگوں والا جاندار ہے۔ اس کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں۔ سانپوں کی کئی اقسام کے سر کی ہڈی میں متعدد اضافی جوڑ ہوتے ہیں جو ان کے سر سے بڑے حجم رکھنے والے شکار کو نگلنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ براعظم انٹارکیٹکا کے علاوہ دنیا میں ہر جگہ جبکہ سمندری سانپ بحر ہند اور بحرالکاہل میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان کی مختلف اقسام کی لمبائی کم از کم چار انچ سے لے کر زیادہ سے زیادہ تیس فٹ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ زمین پر ان کے ارتقا کی تاریخ ایک سو تنتالیس سے ایک سو سڑسٹھ ملین سال پرانی ہے۔ عام تاثر کے برخلاف ان کی زیادہ تر اقسام زہریلی نہیں ہوتیں اور وہ اپنے شکارکو سالم نگل کر یا ان کے گرد لپٹ کر اور انہیں بھینچ کر مارتے ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سانپ آنکھیں نہیں جھپکتا۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ سانپ کی پلکیں شیشے کی طرح شفاف ہوتی ہیں اور وہ مستقل بند رہتی ہیں۔ سانپ اپنی ان شفاف پلکوں کے پار سے ہی دیکھتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی مشہور ہے کہ سانپ بین کی آواز پر مست ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سانپ سن نہیں سکتا، اس کے اندر یہ حس ہوتی ہے کہ وہ آواز کی لہروں کو اپنی کھال کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔ سانپ اپنی کنچلی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’’سانپ کی طرح کنچلی بدلنا ’’محاورتاً بھی استعمال ہوتا ہے۔ سانپوں میں کوبرا بہت مشہور سانپ ہے۔ اس کو سانپوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی زہریلا ہوتا ہے۔ قدیم مصری تہذیب اور ہندو مت میں سانپ کی پوجا کی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ شیطان نے سانپ کی شکل میں جنت میں داخل ہوکر حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو ورغلایا تھا۔
سانپ کے زہر سے بہت سی ادویات بھی تیار کی جاتی ہیں
لیکن یہی سانپ سالانہ پچاس ہزار انسانوں کو
موت کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔

-2 انسان


انسان کے متعلق کیا کہیں؟ انسان تو انسان ہے۔ اشرف المخلوقات۔ اگر نیکی کا راستہ اختیار کرے تو افضل الملائکہ بن جاتا ہے اور اگر بدی کی راہ پر چل نکلے تو اسفل السافلین کے درجے پر جاگرتا ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل سلیم سے نوازا ہے۔ اسی عقل کو استعمال کرتے ہوئے انسان آج ترقی کے اس اوج کمال کو پہنچ گیا ہے کہ جہاں وہ خلا کی وسعتوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے اور تسخیر کائنات کے سفر پر گامزن ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ زمین، اس کے ماحول اور حیوانات و نباتات کو جتنا نقصان انسانوں نے پہنچایا ہے اور کسی نے نہیں پہنچایا۔
بدقسمتی سے انسان سالانہ چار لاکھ پچھتر ہزار
انسانوں کی جان لیتے ہیں۔

-1 مچھر


یہ دوپیروں والا مکھی نما کیڑا اپنی ننھی سی سونڈ سے خون چوسنے کا کام لیتا ہے۔ ان کی ہزاروں اقسام ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں (جن میں دودھ پلانے والے جاندار، پرندے، رینگنے والے جاندار، خشکی اور تری دونوں جگہوں پر رہنے والے جاندار اور یہاں تک کہ کچھ اقسام کی مچھلیاں بھی) کے خون پر پلتی ہیں۔ ان کی چند اقسام تو بغیر ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانداروں اور کھنکھجورے جیسے حشرات کو بھی نہیں بخشتیں۔ ان کے کاٹنے سے جلد پر خارش ہوتی ہے۔ یہ ایک جاندار سے دوسرے جاندار کو مختلف بیماریاں منتقل کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ان کی سبب ہونے والی بیماریوں میں ملیریا، زرد بخار، ڈینگی بخار اور ذکا وائرس قابل ذکر ہیں۔ اسی وجہ سے مچھروں کا شمار دنیا کے خطرناک ترین جانداروں میں ہوتا ہے۔
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ مچھر اناسی ملین سال قبل بھی روئے زمین پر موجود تھے جبکہ کچھ محققین کے بقول ان کی تاریخ اس سے دوگنا زیادہ پرانی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خون پینے کا کام مادہ مچھر کرتی ہے اور نر مچھر پودوں کے رس پر گزارا کرتا ہے۔ مچھروں سے بچاؤ کے لیے متعدد طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جیسے ادویات کا سپرے، لوشن کا استعمال وغیرہ۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر کو ہی حکم دیا تھا کہ وہ اس کے دماغ میں گھس جائے۔
بظاہر چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ جاندار ایک سال میں
ایک ملین افراد کی موت کی وجہ بنتے ہیں۔
یہ تمام اعدادو شمار اور تحقیق اپنی جگہ پر لیکن دو حقائق ایسے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ دنیا میں کوئی بھی جانور چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا یا بڑا ہو، اپنی ہی نوع کو ہلاک نہیں کرتا۔ یہ ’’اعزاز‘‘ صرف حضرت انسان کو حاصل ہے کہ وہ بنی نوع انسان کا حصہ ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کو بے دریغ ہلاک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا اور بیشمار افراد کی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے اور کبھی رنگ و نسل کے نام پر۔ کیا جتنے انسانوں کو چنگیز خان اور ہٹلر نے مارا یا جتنے لوگ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے(ان کی تعداد کروڑوں میں ہے)، جتنے انسان جاپان میں ایٹم بم کا شکار بنے۔جتنے کشمیر، فلسطین، برما، عراق اور شام میں جانوں سے جا رہے ہیں۔ اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے جاندار نے انسانوں کو نقصان پہنچایا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ’’شرف‘‘ صرف انسانوں کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے دوسرے انسانوں کو مارنے کے لیے ایسے ایسے تباہ کن ہتھیار بنائے کہ عقل دنگ ہے تو پھر بین الاقوامی اداروں نے انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے جانداروں کی فہرست میں ’’انسان‘‘ کو اول نمبر کا مستحق کیوں نہیں گردانا؟