Showing posts with label Technology News. Show all posts
Showing posts with label Technology News. Show all posts

Monday, 29 January 2018

اسمارٹ فون دیواروں کے آرپار بھی دیکھ سکیں گے

Wall Scanning Camera
لائٹ ایل 16 کیمرا جس میں 10 سنسر لگے ہیں۔ ایسے کیمرے موبائل فون میں سمو کر انہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ فوٹو: فائل
 لندن: ٹیکنالوجی کے مختلف ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اگلی نسل کے اسمارٹ فون لیزر کے ذریعے دیواروں کے پار دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔
اس ضمن میں گلاسگو یونیورسٹی میں کوانٹم ٹیکنالوجیز کے ماہر ڈینیئل فیشیو اور ہیرئٹ واٹ یونیورسٹی کے اسٹیفن مک لفلِن نے کہا ہے کہ کیمرا ٹیکنالوجی میں انقلاب اور لیزر شعاعوں کی مدد سے بہت جلد دیواروں کے عقب میں دیکھنا ممکن ہوجائے گا۔
ان کے مطابق چہرہ پہچاننے اور سلوموشن ویڈیو بنانے والے کیمرے تو صرف شروعات ہیں۔ کمپیوٹر پروگرام اور الگورتھم  سے کیمرے کی صلاحیت حیرت انگیز طور پر بڑھ چکی ہے۔ بہت جلد کیمرے انسانی جسم میں جھانکنے، دیوار کے آرپار دیکھنے اور دھویں میں دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اگر ان کیمروں کو اسمارٹ فون میں لگادیا جائے تو ان سے باقاعدہ جاسوسی کا کام لینا آسان ہوجائے گا۔
ان میں سے ایک ایجاد ’’سنگل پکسل کیمرا‘‘ ہے جو بہت سادہ اصول پر کام کرتا ہے۔ سنگل پکسل عمل میں روشنی کے ایک ماخذ (سورس) کی مدد سے  روشنی دینے والے کئی ماخذات (سورسز) کی معلومات اور ڈیٹا جمع کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس عمل میں سنگل پکسل کو بار بار کئی مقامات پر ڈالنا ہوگا تاکہ وہاں سے منعکس ہونے والی روشنی جمع ہوتی رہے اور دھیرے دھیرے پورا منظر تخلیق کیا جاسکے لیکن ایسے کیمرے گہرے دھویں اور مکمل اندھیرے میں دیکھنے کے قابل بھی ہوں گے۔
اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ سنگل پکسل کیمرے سے روشنی کے ایسے ذرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں جو کیمرے کے سینسر تک نہیں پہنچ پاتے۔ فزکس کے عمل میں اسے ’کوانٹم الجھاؤ (اینٹینگلمنٹ)‘ کہتے ہیں۔ اس عمل میں دور رہنے والے ذرات آپس میں اس طرح جڑے رہتے ہیں کہ ایک ذرہ دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ملٹی سینسر امیجنگ

دوسری جانب ہمارے پاس ملٹی سینسر امیجنگ کی صورت میں ایک اور ٹیکنالوجی موجود ہے جس میں ایک ہی کیمرے پر مختلف سورسز سے لائٹ پڑتی ہے اور تصویر لینے کے بعد بھی اسے فوکس اور ری فوکس کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ ٹیکنالوجی چھوٹی ہوکر موبائل فون میں سماجائے تو لیزر پوائنٹر کو استعمال کرتے ہوئے دیواروں کی اوٹ میں موجود کسی شے کی تصویر لینا آسان ہوجائے گا ۔ اس کے علاوہ اندھیرے میں دیکھنے والے کیمرے بھی (نائٹ ویژن) عام ہوجائیں گے۔

Monday, 22 January 2018

دماغ میں علم کی اپ لوڈنگ | Brain Uploading

اس انوکھے عمل کی بہترین مثال ہالی وڈ کی فلم دی میٹرکس میں پیش کی گئی ہے
دماغ میں براہ راست کسی بھی چیز کے علم کو کمپیوٹر کی طرح ڈائون لوڈ کردینا ہم سائنس فکشن فلموں میں ہی دیکھتے ہیں تاہم اس انوکھے عمل کی بہترین مثال ہالی وڈ فلموں کے سلسلے ’’ دی میٹرکس‘‘ (The Matrix)میں پیش کی گئی ہے۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ اس میں ہیرو اس وقت چند سیکنڈ میں کنگفو کا ماہر بن جاتا ہے جب اس مارشل آرٹ کو براہ راست اس کے دماغ میں اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔ اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں حقیقی طور پہ ایسا ممکن ہوسکے گا۔
امریکی محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسا اسمولیٹر (simulator) تیار کیا ہے جو اطلاعات کو براہ راست کسی شخص کے دماغ میں فیڈ کرنے سے اسے کم از کم وقت میں نئی صلاحیتیں سیکھانے کا کام کرسکتا ہے۔امریکا کی ایچ آر ایل لیبارٹریز کی اس تحقیق کے حوالے سے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ایسے جدید ترین سافٹ ویئر کی تشکیل کی جانب پہلا قدم ہے جو میٹرکس فلم کے انداز میں کسی بھی چیز کو فوری سیکھنے کا کام کرسکے گا۔
امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسی طرح کا مگر چھوٹے پیمانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے جو اس فلم میں دکھایا گیا تھا۔ابھی وہ مذید تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔ محققین نے ایک تربیت یافتہ انسانی دماغ کے الیکٹرک سگنلز کا جائزہ لیا اور پھر مختلف رضاکاروں میں اس ڈیٹا کو فیڈ کیا تاکہ وہ ایک طیارے کے پائلٹ بن سکیں جس کا تجربہ فلائٹ اسمولیٹر میں کیا گیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں کو الیکٹروڈ ایمبیڈڈ ہیڈ کیپس کے ذریعے برین اسمولیٹر سے گزارا گیا، ان کی طیارے اڑانے کی اہلیت میں بہتری آئی اور انہوں نے دیگر کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ اچھی کارکردگی دکھائی۔

دنیا کی پہلی مکمل سولر کار تیار، اگلے برس سے فروخت کا اعلان | World's First Solar Car

لائٹ ایئر کمپنی کی تیارکردہ پہلی سولر کار 2019ء میں پیش کی جائے گی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ایمسٹرڈیم: ہالینڈ کی ایک اسٹارٹ اپ کمپنی نے دنیا کی پہلی مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلنے والی کمرشل گاڑی متعارف کرادی ہے اور اسے ’’کلائمیٹ انوویٹر ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا ہے۔
اسے ہالینڈ کی ایک کمپنی ’’دی لائٹ ایئر ون‘‘ نے ڈیزائن کیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ کار خود اپنے آپ کو چارج کرتی رہتی ہے اور ایک مرتبہ بیٹری مکمل چارج ہونے کے بعد 400 تا 800 کلومیٹر فاصلہ طے کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہ طویل عرصے سے شمسی توانائی سے چلنے والی کاروں پر تحقیق جاری ہے لیکن اب تک کوئی کمرشل کار سامنے نہیں آسکی جو دیگر گاڑیوں کا مقابلہ کرسکے، مثلاً ٹویوٹا کی ایک کار ’پرائس‘ شمسی توانائی سے صرف 4  میل کا اضافہ کرتی ہے اور اسے بجلی سے چارج کرنے کی بار بار ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مکمل طور پر سورج کی روشنی سے دوڑنے والی کاریں نہیں بنائی جاسکیں، تاہم اب تک بجلی کی چارجنگ سے چلنے والی جتنی بھی گاڑیاں بنائی گئی ہیں ان میں تھوڑے بہت سولر سیلز لگے ہوتے ہیں جو کچھ بجلی فراہم کرتے ہیں۔ انہیں سولر اسسٹڈ الیکٹرک وہیکل (ایس اے ای وی) کہا جاتا ہے۔
تاہم اب بھی لائٹ ایئر ون کا دعویٰ ہے کہ یہ کار نہ صرف سورج کی توانائی سے دوڑے گی بلکہ اس کےلیے تمام ضروری ٹیکنالوجی بھی تیار کرلی گئی ہے۔ اس ضمن میں 5 ذیلی کمپنیاں کئی برس سے محنت کررہی ہیں۔ البتہ اس کار کی کوئی حقیقی تصویر یا تفصیل جاری نہیں کی گئی۔ خود لائٹ ایئر ون کی ویب سائٹ پر کار کے کسی نمونے کی کوئی تصویر موجود نہیں۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2019ء میں پہلی 10 کاریں صرف یورپ میں پیش کی جائیں گی۔ سال 2020ء میں مزید 100 گاڑیاں بنا کر فروخت کی جائیں گی۔

Wednesday, 29 November 2017

خبردار! بٹ کوائن میں سرمایہ کاری آپ کو کنگال کردے گی، ماہرین

Bitcoin in Pakistan Urdu
اس سال گیارہ ماہ کے دوران بٹ کوائن کی قیمت میں 800 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔

بٹ کوائن (Bitcoin) کے نام سے 2009 میں منظرِ عام پر آنے والی سائبر کرنسی نے اس سال اپنی قیمت میں اضافے کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور اس کے ایک یونٹ کی قیمت 10 ہزار امریکی ڈالر (10 لاکھ 55 ہزار پاکستانی روپے ) سے تجاوز کر چُکی ہے۔ لیکن اسی صورتِ حال کو دنیا کے مختلف ماہرینِ معاشیات خطرناک بھی قرار دے رہے ہیں اور لوگوں کو خبردار کررہے ہیں کہ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری انہیں کنگال اور قلاش کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں بلکہ یہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے (آن لائن) لین دین اور سرمایہ کاری ہی میں استعمال ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ کسی ملک کی سرکاری کرنسی بھی نہیں جبکہ دنیا کے بیشتر بینک بٹ کوائن کو بطور کرنسی قبول ہی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود آج دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کا مجموعی حجم 400 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس میں سب سے بڑا حصہ بٹ کوائن کا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : ’’بٹ کوائن کیا ہے
البتہ بٹ کوائن پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسے انٹرنیٹ پر جرائم کی دنیا یعنی ’’ڈارک ویب‘‘ میں منشیات سے لے کر خطرناک اسلحے تک کی غیرقانونی خرید و فروخت میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ بٹ کوائن کے ذریعے آن لائن لین دین کرنے والے افراد اور اداروں کا سراغ لگانا بہت ہی مشکل ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2010 کی ابتداء تک بِٹ کوائن کے ایک یونٹ کی قیمت ایک سینٹ (پاکستانی ایک روپے) سے بھی کم تھی لیکن 2011 میں اس نے بڑھتے بڑھتے ایک ڈالر فی یونٹ کی قدر حاصل کرلی۔ موجودہ سال یعنی 2017 کے ماہِ جنوری میں بٹ کوائن کا ایک یونٹ 800 ڈالر تک پہنچ چکا تھا جو صرف گیارہ مہینے میں دیکھتے ہی دیکھتے 9930 امریکی ڈالر پر پہنچ گیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اگلے چند گھنٹوں یا چند دنوں میں 10000 ہزار ڈالر فی یونٹ کا بینچ مارک بھی عبور کرلے۔ لیکن یہی چیز بینکاری اور مالیاتی نظام سے وابستہ ماہرین کےلیے تشویش کا باعث بھی ہے۔
ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ اس وقت بٹ کوائن کے ایک یونٹ کی قیمت عالمی منڈی میں سونے کے ایک اونس سے بھی بڑھ چکی ہے جبکہ دنیا بھر میں بٹ کوائن میں کی گئی سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت آئی بی ایم، ڈزنی اور مک ڈونلڈ کے انفرادی اثاثوں سے بھی بڑھ چکی ہے۔ حالیہ گیارہ مہینوں کے دوران بٹ کوائن کی قیمت میں 800 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایف ٹی ایس ای (برطانوی اسٹاک ایکسچینج کی 100 نمائندہ کمپنیوں) کی مجموعی مالیت میں ہونے والا اضافہ صرف 3.8 فیصد پر رہا ہے۔
اس وقت انٹرنیٹ پر بہت سے لوگوں کی کہانیاں بھی گردش کررہی ہیں جنہوں نے آج سے سات یا آٹھ سال پہلے صرف چند ڈالروں میں بٹ کوائن یونٹس خریدے تھے اور آج وہ کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ ایسی کہانیوں کے ذریعے انٹرنیٹ پر یہ پیغام پھیلایا جارہا ہے کہ اگر آج کوئی بٹ کوائن یونٹس خریدے گا تو وہ اگلے چند سال میں کھرب پتی بن جائے گا؛ اور لوگ اس کا اثر بھی قبول کر رہے ہیں۔
بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دنیا میں بہت سے سرمایہ دار اس نئی کرنسی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور بڑے پیمانے پر اسے خریدنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ہفتے میں بٹ کوائن کی قیمت میں مزید 15 فیصد کا اضافہ ہوگیا اور اس کی تازہ ترین قیمت 9930 ڈالر فی یونٹ بتائی جارہی ہے، یعنی یہ دس ہزار ڈالر فی یونٹ کا بینچ مارک حاصل کرنے کے بہت قریب ہے۔
بینکاری اور مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل آزمائشی مرحلہ بھی اسی وقت شروع ہوگا کیونکہ بٹ کوائن خریدنے والے بیشتر لوگ اس بینچ مارک (10 ہزار ڈالر فی یونٹ) کے آتے ہی بٹ کوائن فروخت کرنا شروع کرسکتے ہیں کیونکہ ان کا اصل کام ہی کرنسی کی خرید و فروخت سے منافع کمانا ہے۔ تاہم یہ صورتِ حال خود بٹ کوائن کےلیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کرنسی کے پیچھے نہ تو کوئی حکومت ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ بھروسہ مالیاتی ادارہ جو اس کی گرتی ہوئی قدر (ویلیو) کو کنٹرول کرسکے۔
یہ اور ان جیسی کئی باتوں کی بنیاد پر مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بِٹ کوائن دراصل ایک مالیاتی بلبلہ ہے جو اس وقت پھیل ضرور رہا ہے لیکن اپنی آزادانہ حیثیت اور ٹھوس معیشت کی عدم موجودگی میں یہ بلبلہ جلد ہی پھٹ جائے گا، بٹ کوائن کی فی یونٹ قیمت بڑی تیزی سے کم ہوجائے گی اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگ ایک ہی جھٹکے میں مجموعی طور پر کھربوں ڈالروں سے محروم ہونے کے بعد پائی پائی کے محتاج بھی ہوسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ مالیات عام لوگوں کو خبردار کررہے ہیں جبکہ بعض ناقدین تو بِٹ کوائن کو ’’فراڈ‘‘ تک قرار دے چکے ہیں۔

بٹ کوائن کیا ہے

بٹ کوائن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سسٹم میں صرف21ملین بٹ کوائن ہی تخلیق کیے جاسکیں گے

کسی بھی ملک کی معیشت میں کرنسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی کبھی اناج، نمک، زعفران اور کئی مصالحہ جات کو لین دین کے لیے بطور کرنسی استعمال کیا گیا۔
ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔ مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنی کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اور اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن چند سال قبل ایک ایسی ورچوئل کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ وجود میں آئی، جس کی مالیت اس وقت دنیا کی سب کرنسیوں سے بہت زیادہ ہے۔
تادم تحریر ایک ’’بٹ کوائن‘‘ کی مالیت 10800امریکی ڈالر ہے، جب کہ پاکستان میں ایک بٹ کوائن لینے کے آپ کو تقریباً11لاکھ38ہزار   روپے دینے پڑیں گے، لیکن اس ورچوئل کرنسی کی قیمت نیچے بھی بہت تیزی سے آتی ہے۔
 Coin Market Cap بٹ کوائن کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال سے آگاہ رہنے کے لیے یہ ویب سائٹ وزٹ کی جا سکتی ہے
اس غیریقینی صورت حال کے باوجود بٹ کوائن کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف منشیات فروشی، غیرقانونی اسلحے کی تجارت، جوئے کے دھندے میں ملوث اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے لیے یہ کرنسی بہت قابلِ اعتماد سمجھی جا رہی ہے تو دوسری جانب بہت سے مشہور ریستورانوں، کاروباری اداروں اور آن لائن خریدوفروخت اور خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی بٹ کوائن میں پیسوں کا لین دین کر رہے ہیں ، جب کہ چند دن قبل ہی کینیڈا میں دنیا کی پہلی ATM مشین بھی نصب کی گئی ہے، جس کے ذریعے ابتدائی چند دنوں میں ایک لاکھ ڈالر سے زاید مالیت کی ساڑھے تین سو سے زاید ٹرانزیکشن کی جاچکی ہے۔ بٹ کوائن ATM (روبو کوائن) بنانے والی کمپنی کے سی ای او جارڈن کیلی کا کہنا ہے کہ یہ مشین بنانے میں تقریباً 15  ہزار ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ہم دسمبر 2013کے اختتام تک ’’برلن‘‘،’’ٹورنٹو‘‘،’’ہانگ کانگ‘‘،’’لندن‘‘ اور ’’نیویارک ‘‘ سمیت دیگر شہروں میں روبوکوائن نصب کردیں گے۔ اس رپورٹ میں ہم نے بٹ کوائن کی تاریخ اور اس کے کام کرنے کا طریقۂ کار واضح کیا ہے۔
٭ بٹ کوائن کیا ہے؟:  بٹ کوائن رقم کی ادائیگی کے لیے دنیا کا سب سے منفرد ڈیجیٹل کرنسی کا نظام ہے۔ یہ پیسوں کی منتقلی اور وصولی کا دنیا کا پہلا ڈی سینٹرلائزڈ ’’پیر ٹو پیر‘‘ نیٹ ورک ہے، جو استعمال کنندہ کنٹرول کرتا ہے، جس کے لیے اسے کسی سینٹرل اتھارٹی یا مڈل مین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ استعمال کنندہ کے نزدیک بٹ کوائن انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے لیے کیش کی طرح ہے۔
٭بٹ کوائن کس نے ایجاد کیا؟:  بٹ کوائن کو پہلی بار ایک نظریے ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کے تحت استعمال کیا گیا، جسے 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنیcypherpunks(ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography  (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقۂ کار پر مشتمل ہو۔ پہلے بٹ کوائن کی تفصیلات اور اس کے حق میں دلائل 2009 میں ساتوشی ناکاموٹو کی cryptography ملنگ لسٹ میں شایع ہوئے تھے۔ 2010 کے اواخر میں ساتوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا اس پروجیکٹ کو چھوڑدیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی۔ ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔
ساتوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز، ساتوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ساتوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔
٭ بٹ کوائن نیٹ ورک کو کنٹرول کون کرتا ہے؟: بٹ کوائن نیٹ ورک کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس ای میل کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ بٹ کوائن کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، جب کہ ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن وہ بٹ کوائن پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندہ کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بٹ کوائن اسی صورت میں صحیح کام کرتا ہے جب تمام استعمال کنندہ کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔
٭بٹ کوائن کیسے کام کرتا ہے؟: ایک استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر سے بٹ کوائن ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی بٹ کوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے بٹ کوائن بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔لیکن استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو بٹ کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈ ویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام بٹ کوائن بھی دیے جاتے ہیں جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔
کیا لوگ حقیقت میں بٹ کوائن کو بطور ’’رقم ‘‘ استعمال کرتے ہیں؟
دنیا بھر میں بٹ کوائن کے لین دین میں انفرادی اور کاروباری سطح پر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جن میں ریسٹورینٹ، اپارٹمنٹس، لا فرمز، اور آن لائن خدمات فراہم کرنے والی مشہور کمپنیاںNamecheap, WordPress, ، Reddit اور Flattr شامل ہیں۔ بٹ کوائن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ اگست 2013 کے اختتام تک دنیا بھر میں زیرِگردش بٹ کوائنز کی مالیت150 کروڑ1.5 ) بلین (ڈالر سے تجاوز کرچکی تھی،جب کہ روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائنز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
٭بٹ کوائنز سے ادائیگی کا طریقۂ کار: بٹ کوائن سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کر سکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے ) اسکین کرلیں۔
٭بٹ کوائنز کے فوائدپیسے ادا کرنے کی آزادی : بٹ کوائن کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔ یہ طریقۂ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور کسی حد سے مبر ا ہے۔ بٹ کوائن استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتا ہے۔
انتہائی کم فیس: بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal  اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔
مرچنٹس کے لیے کم خطرات: بٹ کوائنز کی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرچنٹ کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور وہ کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔
٭سیکیوریٹی اور کنٹرول: بٹ کوائن کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے بٹ کوائن کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے جب کہ بٹ کوائن سے کی جانے والی ادائیگی صارف کی نجی معلومات کے بنا پرکی جاتی ہے۔ بٹ کوائن کو بیک اپ کے طور پر بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
٭بٹ کوائن کے نقصانات : بٹ کوائن مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کر سکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر نا ممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم بٹ کوائن پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔
بٹ کوائن کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک بٹ کوائن کے بارے میں نہیں جانتے۔ گرچہ دن بہ دن اس کے استعمال کنندہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن یہ تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔
بٹ کوائن کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر بٹ کوائن وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔
بٹ کوائن آن لائن بینکنگ نیٹ ورکس اور کریڈٹ کارڈ ز کی طرح ورچوئل ہے۔ بٹ کوائن کو کرنسی کی دوسری اقسام کی طرح آن لائن شاپنگ اور فزیکل اسٹورز پر خریداری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ اسے منی چینجر سے ایکسینچ کروا کر کاغذی کرنسی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی زیادہ سہل سمجھتے ہیں۔ تاہم بٹ کوائن کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا ابھی بعید از قیاس ہے۔ بٹ کوائن کے کاروبار کو کچھ ملکوں میں غیرقانونی قرار دیا گیا ہے تو کچھ ملکوں میں اس کو قانونی قرار دے کر ’’بٹ کوائن ایکسچینج‘‘ کھولنے کے لیے لائسنس کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے۔
٭بٹ کوائن کیسے بنائے جاتے ہیں؟: نئے بٹ کوائنز ایک ڈی سینٹرالائز پروسیس ’’مائننگ‘‘ سے بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں نیٹ ورک کے لیے خدمات سر انجام والے افراد کو انعام کے طور پر بٹ کوائنز دیے جاتے ہیں۔ ان افراد کو ’’مائنرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مائنرز ٹرانزیکشنز کو پروسیس کرنے اور اسپیشلائزڈ ہارڈ ویئرز استعمال کرتے ہوئے نیٹ ورک کو محفوظ اور ایکسچینج میں نئے بٹ کوائنز کو جمع بھی کرتے ہیں۔
بٹ کوائن پروٹوکول اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ نئے بٹ کوائن ایک فکسڈ ریٹ پر تخلیق ہوتے ہیں، جس نے بٹ کوائن مائننگ کو بہت مسابقت والا کاروبار بنادیا ہے۔ جب زیادہ مائنرزنیٹ ورک میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر انفراد طور پر ہر کسی کا منافع کم ہوجاتا ہے اور کسی ڈویلپر یا مائنر کے پاس منافع میں اضافے کے لیے سسٹم میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سسٹم کے معیار سے مطابقت نہ کرنے والے بٹ کوائن نوڈ کو دنیا بھر میں مسترد کردیا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی قیمت کا انحصار معاشیات کے قانون ’’طلب‘‘ اور ’’رسد‘‘ پر ہے۔ طلب بڑھنے پر بٹ کوائن کی قیمت میں اضافہ اور کم ہونے پر کمی ہوجاتی ہے۔
بٹ کوائن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سسٹم میں صرف21ملین بٹ کوائن ہی تخلیق کیے جاسکیں گے۔ تاہم اس کی کوئی حد نہیں ہوگی کیوںکہ بٹ کوائنز کو 8 ڈیسی مل ( 0.000 000 01 BTC )میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مستقبل میں ضرورت پیش آنے پر اسے مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

Thursday, 16 November 2017

ایس ایم ایس کی موت

روزانہ 23 ارب ایس ایم ایس کے مقابلے میں 35 ارب واٹس ایپ اور 25 ارب فیس بک میسنجر پیغامات لوگ ارسال کرتے ہیں
آپ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ سچ ہے کہ رفتہ رفتہ دنیا میں مقبول ترین باہمی رابطے کا ذریعہ سمجھے جانے والا ایس ایم ایس دم توڑتا جارہا ہے۔ اس کی جگہ واٹس ایپ اور فیس بک میسنجر نے لینا شروع کردی ہے۔
جی ہاں اس وقت اگر روزانہ 23 ارب ایس ایم ایس دنیا بھر میں بھیجے جاتے ہیں تو اس کے مقابلے میں 35 ارب واٹس ایپ اور 25 ارب فیس بک میسنجر پیغامات لوگ ارسال کرتے ہیں۔اس بات کا انکشاف گزشتہ دنوں فیس بک کی سالانہ ایف ایٹ کانفرنس کے دوران کیا گیا 
اس کا مطلب ہے کہ دونوں پلیٹ فارمز (واٹس ایپ اور فیس بک میسنجر)سے دنیا بھر میں لوگ روزانہ 60 ارب پیغامات بھیج رہے ہیں جبکہ موبائل فون کے مختصر پیغامات اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔فیس بک میسنجر بہت تیزی سے مقبولیت کے زینے چڑھ رہا ہے اور فیس بک کا سب سے تیزی سے فروغ پاتا پلیٹ فارم بن چکا۔ایک ارب واٹس ایپ صارفین اور 90 کروڑ فیس بک میسنجر کے صارفین کے ساتھ فیس بک مختصر پیغامات کی دنیا میں دیگر کمپنیوں سے بہت آگے ہے۔
وائی فائی، فورجی اور انٹرنیٹ سے منسلک میسجنگ ایپس کے فروغ کے باعث ایس ایم ایس پیغامات کی موت بتدریج ہونے لگی ہے۔درحقیقت ایس ایم ایس کرنا کچھ موبائل فون کمپنیوں پر مہنگا پڑتا ہے۔ جبکہ موبائل سگنل کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس میں گروپ چیٹس اور فائل شیئرنگ جیسے ایڈوانس فیچرز شامل نہیں۔
ٹیکسٹ میسج کے زوال کے ساتھ دوسری جانب میسجنگ ایپس میں نت نئے فیچرز کا اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اپنے آپ کو ایس ایم ایس کا متبادل ثابت کرنا چاہتی ہیں۔فیس بک اور مائیکروسافٹ نے میسنجر اور اسکائپ میں چیٹ بوٹس بھی متعارف کرادیئے ہیں تاکہ انہیں نہ صرف ایس ایم ایس بلکہ دیگر تمام ایپس کا متبادل بنادیں۔اسی طرح گوگل نے حال ہی میں مختلف موبائل فون کمپنیوں کے اشتراک سے ایس ایم ایس کے متبادل کے طور پر رچ کمیونیکشن سروسز متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جسے رواں سال یا آئندہ سال تک صارفین کو پیش کردیا جائے گا۔

Tuesday, 14 November 2017

سست اینڈروئیڈ موبائل کوتیزرفتاربنائیے


اپنے سست اسمارٹ فون کی رفتار آپ خود بہ آسانی بڑھا سکتے ہیں
 کیا آپ کے اسمارٹ فون کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوگئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا حل بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ 
ہوم اسکرین پر کم سے کم ایپس
عموماً اسمارٹ فونز کی ہوم اسکرین پر ایپس کے آئکنز کی بھرمار ہوتی ہے جس سے موبائل ڈیوائس پر دباؤ بڑھتا اور اسکرین لوڈ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ایسی ایپس جن کا استعمال بہت کم ہو انہیں انسٹال کرنے کے بعد شارٹ کٹس کو  ہوم اسکرین سے ہٹادیجیے۔ یہ غیر ضروری شارٹ کٹس بلاوجہ بوجھ بنتے ہیں جو اسکرین کی روانی میں کام کرنے کی صلاحیت کو متاثرکرتے ہیں۔
اپ ڈیٹ
بعض اوقات  اسمارٹ فون کا اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم وائرس سے بھر جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں اپنی ڈیوائس کے آپریٹنگ سسٹم کی اپ ڈیٹس کو نظر انداز نہ کیجیے اور جتنا ممکن ہو اپنی ڈیوائس میں نیا آپریٹنگ سسٹم اپ ڈیٹ کرلیجیے۔ موبائل کی سیٹنگز میں پہنچ کر ’’اباؤٹ فون‘‘ کے آپشن پر کلک کیجیے اور دستیاب  نئے ورژن سسٹم کو اپ ڈیٹ کردیجیے۔
ناقابل استعمال ایپس
ایسی ایپلی کیشنز جو بہت کم استعمال ہوں یا بہت زیادہ جگہ (اسٹوریج) لیتی ہوں انہیں پہلی فرصت میں ڈیلیٹ کردیجیے کیونکہ اگرچہ آپ انہیں استعمال نہیں کررہے ہوتے لیکن پھر بھی وہ بیک گراؤنڈ میں فعال ہوتی ہیں جو بے کار میں بیٹری  خرچ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ بس تھوڑا سا وقت نکال کر غیر ضروری ایپس کو انَ انسٹال کردیجیے۔
کیشے کلیئر
موبائل کی سست روی کا ایک بڑا سبب ایپلی کیشن اور ریم کیشے کا ڈیلیٹ نہ ہونا ہے۔ اپنی ڈیوائس میں کیشے کلیئر کرنے والی کوئی ایپ مثلاً کلین ماسٹر، سی کلینر، ڈی یو کلینر یا ان جیسی کوئی دوسری ایپ ضرور انسٹال رکھیے  تاکہ قابلِ استعمال ایپس کیشے کلیئر ہوجائے۔ کچھ ایسی ایپس بھی پلے اسٹور پر دستیاب ہیں جو نشاندہی کرتی ہیں کہ کونسی ایپ ریم کا استعمال زیادہ کررہی ہے جس کی وجہ سے موبائل  کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔
آٹو سنک
گوگل، یوٹیوب، پلے اسٹور اور ایسی دیگر ایپس جو خودکار انداز میں باہمی طور پر اپ ڈیٹ ہوتی ہیں، یہ عمل ’’آٹو سنک‘‘ کے تحت ہوتا ہے۔ آٹو سنک  نہ صرف بیٹری کی لائف کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ اپ ڈیشن کی وجہ سے موبائل کے فنکشنز کو بھی سست  کردیتا ہے۔ آٹوسنک کو ڈس ایبل کردیجیے یا اسے بند کردیجیے۔ موبائل سیٹنگز میں اکاؤنٹ پر کلک کیجیے اور آٹو سنک کو ڈس ایبل یا ٹرن آف کردیجیے۔

Thursday, 2 November 2017

حیرت انگیز خصوصیات کا بم پروف لباس


روس کا جدیدترین بم پروف لباس:فوٹو: روسٹیک اسٹیٹ کارپوریشن
ماسکو: روسی ماہرین نے حیرت انگیز خصوصیات کا حامل، ایسا بم پروف لباس تیار کرلیا ہے جو نہ صرف گولیوں کا بہ آسانی مقابلہ کرسکتا ہے بلکہ اپنے پہننے والے کو بم کے شدید دھماکے سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے۔
روسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’’روسٹیک اسٹیٹ سپورٹ سسٹم‘‘ نامی ادارے کے چیف ڈیزائنر اولیگ فوسٹو کا کہنا ہے کہ سوٹ میں موجود پانچ اقسام کے نظاموں کو آپس میں مربوط کیا گیا ہے جو مختلف امور کی انجام دہی کےلیے 59 آلات پر مشتمل ہیں۔ ان کی بدولت اس لباس کو پہننے والا شخص نہ صرف اپنا تحفظ بہتر بناسکے گا بلکہ وہ جدید مواصلاتی رابطوں اور ارد گرد کے ماحول پر بہتر انداز میں نظر رکھنے کے قابل بھی ہوجائے گا۔
’’ریٹنک کومبیٹ کِٹ‘‘ کے نام سے تیار کیا جانے والا یہ حیرت انگیز لباس مستقبل کے فوجی دستوں کا خصوصی لباس بھی قرار دیا جارہا ہے جبکہ اس کے تازہ ڈیزائن میں ایک جدید ترین اور انتہائی سخت جان گھڑی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جس کے بارے میں روسٹیک اسٹیٹ سپورٹ سسٹم کا دعوی ہے کہ یہ ایٹمی دھماکے میں بھی محفوظ رہے گی۔ تاہم ایسی کوئی بات باقی لباس کےلیے نہیں کہی گئی ہے۔ ریٹنک کومبیٹ کٹ ہرطرح کے موسم میں کارآمد اور دن میں 24 گھنٹے استعمال کیے جانے کے قابل بھی ہے۔
اس لباس کی افادیت ثابت کرنے کےلیے روسی خبر رساں اداروں کی جانب سے ایک مختصر ویڈیو بھی ایک بار پھر جاری کی گئی ہے جس میں یہ لباس پہنے ہوئے ایک شخص کو بم دھماکے سے بحفاظت نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے
واضح رہے کہ ریٹنک کومبیٹ کِٹ کا پہلا ڈیزائن 2015 میں سامنے آیا تھا جسے دفاعی حلقوں میں خوشی کے علاوہ بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ریٹنک کومبیٹ کٹ کا اگلا ڈیزائن (ریٹنک 3) موجودہ ڈیزائن کے مقابلے میں 30 فیصد تک ہلکا ہوگا جسے 2020 تک روسی فوج کے حوالے کردیا جائے گا۔
روسی فوج کے علاوہ ریٹنک کومبیٹ کِٹ ممکنہ طور پر بم ڈسپوزل اسکواڈ کے استعمال میں  بھی آسکے گی جس کے عملے کو بم ناکارہ بناتے وقت جان سے ہاتھ دھونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔

Wednesday, 25 October 2017

اے ٹی ایم استعمال کرنے والے اسے ضرور پڑھیں اور فراڈ سے بچیں


سائبر لٹیرے اے ٹی ایم میں تبدیلی کرکے بھی آپ کو قیمتی سرمائے سے محروم کرسکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)
کراچی: پورے ملک میں نقد رقم نکلوانے کےلیے آٹو ٹیلر مشینوں (اے ٹی ایم) کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جہاں آپ اپنے ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم نکلوا سکتے ہیں لیکن اے ٹی ایم کا استعمال بھی خطرے سے خالی نہیں۔
عوام کو جدید طریقوں سے لوٹنے والے گروہ بڑی خاموشی سے اے ٹی ایم میں ایسی تبدیلیاں کردیتے ہیں جو آسانی سے محسوس نہیں ہوتیں لیکن انہی تبدیلیوں کے ذریعے یہ فراڈیئے آپ کو مطلوبہ رقم کے علاوہ پاس ورڈ اور دوسری حساس معلومات سے بھی محروم کرسکتے     ہیں۔
اگر آپ بھی کیش نکلوانے کےلیے اے ٹی ایم کا استعمال کرتے ہیں تو کچھ چیزوں پر توجہ دے کر اپنی محنت کی کمائی غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے بچا سکتے ہیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسے فراڈ میں زیادہ تر تین طرح کے خفیہ آلات استعمال کیے جاتے ہیں: اے ٹی ایم کارڈ کی مقناطیسی پٹی پر موجود (اکاؤنٹ ہولڈر کی) معلومات پڑھنے والا آلہ، خفیہ کیمرہ اور (اصل اے ٹی ایم جیسا) کی پیڈ تاکہ آپ کا پاس ورڈ چوری کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈارک ویب: انٹرنیٹ کی انڈر ورلڈ
اسکمر (skimmer):
یہ ایک ایسا جعلی آلہ ہوتا ہے جسے اے ٹی ایم کارڈ کی اصل سلاٹ کے بالکل اوپر، اس طرح نصب کیا جاتا ہے کہ یہ اے ٹی ایم کارڈ سلاٹ کو چھپا لیتا ہے۔ صارف اسی کو اصل سمجھتے ہوئے اے ٹی ایم کارڈ اس میں ڈال دیتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی اے ٹی ایم کارڈ اسکمر میں پہنچتا ہے تو یہ اس کی مقناطیسی پٹی پر موجود، صارف کی اہم معلومات اپنے اندر منتقل کرلیتا ہے۔
خفیہ کیمرا:
اسکمر کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا خفیہ کیمرا بھی اے ٹی ایم میں کسی ایسی جگہ نصب ہوسکتا ہے جہاں سے اے ٹی ایم کی پیڈ صاف دیکھا جاسکتا ہو۔ اس کا مقصد دراصل صارف کے اینٹر کیے ہوئے پن کوڈ سے واقفیت حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ یہ خفیہ کیمرا اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے کی پیڈ کے قریب یا اے ٹی ایم اسکرین کے اوپر کسی مقام پر نصب کیا جاسکتا ہے۔
جعلی کی پیڈ:
دیکھنے میں یہ بھی بالکل اصلی اے ٹی ایم کی پیڈ جیسا ہی ہوتا ہے جسے پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب کوئی صارف اس میں اپنا پن کوڈ اینٹر کرتا ہے تو یہ اسے اپنے اندر محفوظ کرلیتا ہے۔
سائبر لٹیرے آپ کی یہ قیمتی معلومات چوری کرکے نقلی اے ٹی ایم کارڈ بھی بناسکتے ہیں یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اور طریقہ استعمال کرتے ہوئے، آپ کی لاعلمی میں آپ کو اچھی خاصی رقم سے محروم بھی کردیں۔
اے ٹی ایم میں کی گئی ان مکارانہ تبدیلیوں کا پتا چلانا اگرچہ بہت مشکل ہوتا ہے لیکن تھوڑی سی توجہ اور احتیاط کرکے آپ خود بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس میں کچھ گڑبڑ کی گئی ہے یا نہیں۔ اے ٹی ایم کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی کچھ نمایاں علامت ملاحظہ کیجیے:
اے ٹی ایم پر خراشیں، دراڑیں اور ایسی ظاہری علامات موجود ہوں جیسے اس میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہورہی ہو۔
اے ٹی ایم میں کچھ ایسی چیزیں بھی اضافی طور پر دکھائی دے رہی ہوں جن کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہ آتی ہو۔
اے ٹی ایم کی ساخت، اس کے مٹیریل، رنگ اور کناروں وغیرہ کا کچھ عجیب سا دکھائی دینا۔
اے ٹی ایم کارڈ سلاٹ جزوی طور پر اکھڑتی ہوئی محسوس ہو یا پھر وہ ناہموار ہو جبکہ ایسا ہونے کی کوئی ظاہری وجہ بھی موجود نہ ہو۔
اے ٹی ایم فراڈ سے بچنے کےلیے اضافی اقدامات یقیناً آپ کو زیادہ محفوظ بھی بنائیں گے:
اپنے بینک سے ایس ایم ایس الرٹ آن کروالیجیے تاکہ جب بھی آپ کے بینک اکاؤنٹ میں سے کوئی رقم نکلوائی جائے (یا جمع کروائی جائے) تو اس کی اطلاع فوری ایس ایم ایس کے ذریعے آپ تک پہنچ جائے۔ اس طرح اگر کوئی شخص آپ کی معلومات چوری کرکے آپ کے اکاؤنٹ سے رقم نکلوائے گا تو آپ کو فوراً اس کارروائی کی خبر ہوجائے گی اور آپ اپنے بینک کو کال کرکے اس کی اطلاع دے سکیں گے۔
پن کوڈ اینٹر کرتے وقت اپنی ایک ہتھیلی سے کی پیڈ کے اوپر پھیلادیجیے تاکہ اگر کوئی خفیہ کیمرہ نصب بھی ہو تو اسے یہ دکھائی نہ دے سکے کہ آپ کونسا پاس ورڈ استعمال کرتے ہوئے اے ٹی ایے سے رقم نکلوا رہے ہیں۔
کوشش کیجیے کہ مشہور بینکوں کی نصب کی ہوئی قابلِ بھروسہ اے ٹی اے ہی سے رقم نکلوائیں کیونکہ بعض مرتبہ پوری کی پوری جعلی اے ٹیم نصب کرکے بھی صارفین کے ساتھ فراڈ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی نامعلوم علاقے میں ہوں تو بہتر ہے کہ وہاں کے مقامی افراد سے پوچھ کر کسی قابلِ بھروسہ اے ٹی ایم کا رُخ کریں۔
اس کے علاوہ آپ اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال محدود کرکے، ایک وقت میں کم رقم نکلوا کر اور رقم کی آن لائن منتقلی کی حدود کم کرکے بھی اپنی رقم کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔

Thursday, 5 October 2017

کرپٹو کرنسی؛ کسی حکومتی پالیسی کے بغیر چلنے والی نقدی | What is cryptocurrency and its future

بٹ کوائن، لٹ کوائن، ایتھریم رکھنے والے افراد چند سال میں ارب پتی بن چکے ہیں۔ فوٹو : فائل
Cryptocurrency is new type of digital currency. An interesting thing is that, no one is owner of cryptocurrency and also nobody can claim this technology, users of this digital currency are controlled it.
کسی بھی ملک کی معیشت میں کرنسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم سے ہی اناج، نمک، زعفران اور کئی مسالا جات کو لین دین کے لیے بطور کرنسی استعمال کیا گیا۔ ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔
تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔ مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنے کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن چند سال قبل کرپٹو کرنسی متعارف کرائی گئی۔
کرپٹو کرنسی کو متبادل یا غیرمرئی کرنسی بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں متعارف کرائی گئی پہلی کرپٹو کرنسی بٹ کوائن تھی۔ اس کے بعد بہت سی ڈیجیٹل کرنسیز مارکیٹ میں آئیں، جن کی قیمتوں میں پچھلے دو تین سالوں میں بہت تیزی آئی ہے اور ان کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں افراد مختصر عرصے میں ارب پتی، کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی میں متعارف ہونے والا پہلا کوائن، بٹ کوائن اس وقت اپنی انتہائی بلند ترین قیمت 3 ہزار248 ڈالر فی کوائن پر فروخت ہورہا ہے، پاکستانی کرنسی میں اس کی مالیت تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے بنتی ہے، جب کہ 2013 میں اس کی فی کوائن قیمت 300 امریکی ڈالر تھی۔
بٹ کوائن کی قدر میں تیزی سے ہوتے اضافے کے بعد دنیا بھر میں بہت سی کرپٹو کرنسی متعارف کرائی گئیں، اس وقت دنیا بھر میں تین ہزار سے زاید کرپٹو کرنسیز گردش میں ہیں، جن میں ہر ایک کی مالیت الگ الگ ہے۔ کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہ ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل کرنسیز کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔
جہاں ایک طرف منشیات فروشی، غیرقانونی اسلحے کی تجارت، جوئے کے دھندے میں ملوث اور منی لانڈرنگ کرنے والے افراد کے لیے ڈیجیٹل کرنسی بہت قابلِ اعتماد سمجھی جا رہی ہے تو دوسری طرف کرپٹو کرنسی کے لین دین میں انفرادی اور کاروباری سطح پر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی لین دین کرنے والے کاروبار میں ریسٹورینٹ، اپارٹمنٹس کی خریدوفروخت، لا فرمز، اور آن لائن خدمات فراہم کرنے والی مشہور کمپنیاں Namecheap, WordPress,، Reddit اور Flattr شامل ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی میں سب سے مقبول بٹ کوائن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائنز کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
٭کرپٹو کرنسی کیا ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ کرپٹو کرنسی کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر تو بنا سکتے ہیں، لیکن وہ اس کرنسی کے پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندگان کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپٹو کرنسی اسی صورت میں صحیح کام کرتی ہے جب تمام استعمال کنندگان کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔
٭کرپٹو کرنسی کس طرح کام کرتی ہے؟
ایک استعمال کنندہ کے نقطہ نظر سے کرپٹو کرنسی ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی کرپٹوکوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے کوائن (ڈیجیٹل کرنسی) بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔ لیکن استعمال کنندہ کے نقطہ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈ ویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام کوائن بھی دیے جاتے ہیں، جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔
٭کرپٹو کرنسی سے ادائیگی کا طریقۂ کار:
ڈیجیٹل کرنسی سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کر سکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے) اسکین کرلیں۔ اس طریقہ کار کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور حکومتی پالیسیوں کی قید سے آزاد ہے۔
کرپٹو کرنسی استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ کرپٹوکرنسی سے کی جانے والی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری مقاصد کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور تجارت پیشہ افراد کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے۔
٭ کرپٹو کرنسی کے نقصانات: 
کرپٹو کرنسی مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کر سکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر ناممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم ڈیجیٹل کرنسی کے چین بلاک پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔
ڈیجیٹل کرنسی کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک اس بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ کرپٹو کرنسی کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر ڈیجیٹل کرنسی وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔
٭کرپٹو کرنسی کس نے ایجاد کی؟
دنیا کی پہلی ڈیجیٹل کرنسی کو ایک نظریے ’’کرپٹو کرنسی‘‘ کے تحت استعمال کیا گیا، جسے 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنی cypherpunks (ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقہ کار پر مشتمل ہو۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک امریکی رمز نویس نک سابو نے بٹ گولڈ کے نام سے ایک کرنسی تخلیق کی۔ یہ ایک برقی کرنسی کا نظام تھا۔ دنیا کی پہلی ڈی سینٹرلائزڈ کرپٹو کرنسی کو ایک ڈیولپر ستوشی ناکاموتو نے تخلیق کیا تھا، پہلے بٹ کوائن کی تفصیلات اور اس کے حق میں دلائل 2009 میں ستوشی ناکاموٹو کی cryptography میلنگ لسٹ میں شایع ہوئے۔ 2010 کے اواخر میں ستوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔ ستوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز۔ ستوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ستوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔ لٹ کوائن، ایتھریم اور بٹ کوائن آن لائن بینکنگ نیٹ ورکس اور کریڈٹ کارڈ ز کی طرح ورچوئل ہے۔ انہیں کرنسی کی دوسری اقسام کی طرح آن لائن شاپنگ اور فزیکل اسٹورز پر خریداری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ اسے منی چینجر سے ایکسینچ کروا کر کاغذی کرنسی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ موبائل فون کے ذریعے ادائیگی زیادہ سہل سمجھتے ہیں۔ تاہم کرپٹو کرنسی کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا ابھی بعید از قیاس ہے۔ ڈیجیٹل کوائنز/کرنسیز کے کاروبار کو کچھ ملکوں میں غیرقانونی قرار دیا گیا ہے تو کچھ ملکوں میں اس کو قانونی قرار دے کر ’’کرپٹو کرنسی ایکسچینج‘‘ کھولنے کے لیے لائسنس بھی جاری کیے جارہے ہیں۔
٭کوائن کیسے بنائے جاتے ہیں؟
نئے کوائنز ایک ڈی سینٹرالائز پروسیس ’’مائننگ‘‘ سے بنائے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں نیٹ ورک کے لیے خدمات سر انجام والے افراد کو انعام کے طور پر کوائنز دیے جاتے ہیں۔ ان افراد کو ’’مائنرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مائنرز ٹرانزیکشنز کو پروسیس کرنے اور اسپیشلائزڈ ہارڈ ویئرز استعمال کرتے ہوئے نیٹ ورک کو محفوظ بناتے ہوئے ایکسچینج میں نئی کرپٹو کرنسی کو جمع بھی کرتے ہیں۔ ان کوائنز کا پروٹوکول اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ نئے کوائن ایک فکسڈ ریٹ پر تخلیق ہوتے ہیں، جس نے کرپٹو کرنسی کو بہت مسابقت والا کاروبار بنادیا ہے۔ جب زیادہ مائنرزنیٹ ورک میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر انفرادی طور پر ہر کسی کا منافع کم ہوجاتا ہے اور کسی ڈویلپر یا مائنر کے پاس منافع میں اضافے کے لیے سسٹم میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سسٹم کے معیار سے مطابقت نہ کرنے والے ڈیجیٹل کوائنز نوڈ کو دنیا بھر میں مسترد کردیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی قیمت کا انحصار معاشیات کے قانون ’’طلب‘‘ اور ’’رسد‘‘ پر ہے۔
دنیا بھر میں سر فہرست ڈیجیٹل کرنسی 
٭ بٹ کوائن
بٹ کوائن رقم کی ادائیگی کے لیے دنیا کا سب سے منفرد ڈیجیٹل کرنسی کا نظام ہے۔ یہ پیسوں کی منتقلی اور وصولی کا دنیا کا پہلا ڈی سینٹرلائزڈ ’’پیر ٹو پیر‘‘ نیٹ ورک ہے، جو استعمال کنندہ کنٹرول کرتا ہے، جس کے لیے اسے کسی سینٹرل اتھارٹی یا مڈل مین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ استعمال کنندہ کے نزدیک بٹ کوائن انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے لیے نقد رقم کی طرح ہے۔ بٹ کوائن کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سسٹم میں صرف دو کروڑ دس لاکھ بٹ کوائن ہی تخلیق کیے جاسکیں گے۔ اب تک ایک کروڑ دس لاکھ بٹ کوائن آچکے ہیں۔ بٹ کوائنز کو 8 ڈیسی مل (0.000 000 01 BTC) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مستقبل میں ضرورت پیش آنے پر اسے مزید چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی طلب اور کم ہوتی رسد کی وجہ سے اگلے پانچ سالوں میں اس کی مالیت موجودہ مالیت سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
٭ ایتھریم
یہ کرپٹو کرنسی کا پیر ٹو پیر اسمارٹ کونٹیکٹ پر مشتمل ایک ڈی سینٹرالائزڈ پلیٹ فارم ہے۔ اسے 2015 میں ویٹالک بٹرن نے ’نیکسٹ جنریشن کرپٹوکرنسی اینڈ ڈی سینٹرالائزڈ ایپلی کیشن پلیٹ فارم‘ کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ استعمال میں آسان اور زیادہ تر جگہ پر قابل قبول ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دو سال کے مختصر عرصے میں ایک ایتھریم کی قیمت 265 ڈالر کے مساوی ہوچکی ہے۔
٭لٹ کوائن
لٹ کوائن کو اکتوبر 2011 میں جاری کیا گیا۔ اسے گوگل کے سابق ملازم چارلس لی نے بٹ کوائن کے متبادل کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ لٹ کوائن کو دیگر کرپٹو کرنسی کی طرح مائئنگ کے ذریعے حاصل کر کے خریدو فروخت اور خدمات حاصل کرنے کے لیے نقد رقم کی طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسے استعمال کرنے اور مائننگ کا طریقہ بھی کافی حد تک بٹ کوائن سے مماثلث رکھتا ہے۔ اس وقت ایک لٹ کوائن کی مالیت 45ڈالر ہے۔ اس وقت ایک کروڑ اسی لاکھ لٹ کوائن زیرگردش ہیں۔
٭زی کیش
زی کیش ایک ڈی سینٹرالائزڈ اور اوپن سورس پر مبنی کرپٹو کرنسی ہے، جسے 2016 میں متعارف کرایا گیا۔ زی کیش کی مقبولیت کی اہم وجہ اس کی منتخب شفاف ٹرانزیکشنز ہیں۔ زی کیش کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے استعمال کنندہ کی نجی معلومات کو محفوظ رکھتے ہوئے ہر بلاک چین میں ہونے والے ہر لین دین کے لیے اضافی سیکیوریٹی کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ اس کرپٹو کرنسی میں بھیجنے اور وصول کرنے کے ساتھ ساتھ بھیجی گئی تمام رقوم کی تفصیلات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ بٹ کوائن سے مماثل لیکن اس سے زیادہ محفوظ ہونے کی وجہ سے اس کی قدر چند ماہ کے عرصے میں ہی دو سو ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔
٭ڈیش
ڈیجیٹل کیش کے مخفف ڈیش نام کی اس کرپٹو کرنسی کو 2014 میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس کرنسی کو ڈارک کوائن کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا، جو معلومات خفیہ رکھنے کی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ڈارک ویب سائٹس (ایسی ویب سائٹس جو سرچ انجن کی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے، اسلحہ، منشیات، پورنو گرافی اور اس نوعیت کی دیگر خدمات فراہم کرتی ہیں) استعمال کرنے والوں کی اولین ترجیح بن چکی تھی۔ اس وقت مارکیٹ میں سات کروڑ ستر لاکھ ڈیش زیرگردش ہیں، جب کہ اس کی مالیت 196ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
کرپٹو کرنسی کے نام پر فراڈ!
کرپٹو کرنسی دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے، لیکن اب بھی عوام کی اکثریت اس کے بارے میں اور اس کے ذریعے خرید و فروخت کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاطر اور مفاد پرست عناصر سادہ لوح افراد کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ان ممالک میں بنگلادیش، انڈیا اور پاکستان سرفہرست ہیں جہاں جعل ساز لوگوں کو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے نام پر بے وقوف بنا کر انہیں زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ کرپٹو کرنسی کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ کمی بھی ایک دم ہی ہوتی ہے اور یہ کام ایسا ہے جس کے لیے انٹرنیٹ اور آن لائن فاریکس مارکیٹ کی ابتدائی معلومات ہونا ضروری ہے۔ بہت سی ویب سائٹس آپ کو ڈیجیٹل کرنسی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتی نظر آئیں گی، لیکن سوائے چند ایک کے ساری کمپنیاں آپ سے ڈالر، پاؤنڈ، پاکستانی اور انڈین کرنسی میں رقوم وصول کر کے بھاگ جاتی ہیں۔ بٹ کوائن، لٹ کوائن، ایتھریم ، رپل، ڈوگ کوائن اور دیگر سیکڑوں کرپٹو کرنسیز کی معلومات www.coinmarketcap.com سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔