کراچی: زمین کے بعد مریخ غالباً وہ واحد سیارہ ہے جس پرانسان نے سب سے زیادہ تحقیق کی ہے جب کہ خلائی کھوجیوں کی بڑی تعداد بھی مریخ ہی کی طرف بھیجی گئی ہے کیونکہ ہمیں یہ امید ہے کہ نظامِ شمسی میں اگرزمین کے بعد کہیں زندگی موجود ہوسکتی ہے تو وہ اسی سیارے پر ممکن ہے۔
حکومتوں کے علاوہ اب تک نجی اداروں نے بھی مریخ پر انسانی بستیاں آباد کرنے کے منصوبے بنانا شروع کردیئے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے اکیسویں صدی کے دوران ہی مریخ پر پہلی انسانی بستی وجود میں آجائے گی۔
مریخ کس نے دریافت کیا؟
کوئی نہیں جانتا کہ مریخ کس نے دریافت کیا کیونکہ ہمیشہ سے مریخ کو اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے آسمان میں بہ آسانی دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اسی لیے قدیم زمانے میں اس کا نام ’’سرخ ستارہ‘‘ بھی تھا، حالانکہ یہ ایک سیارہ ہے اسے جنگ و جدل اور قہر و غضب کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا۔
مریخ پر آپ بہت ہلکے رہ جائیں گے:
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مریخ اور زمین میں بہت مماثلت ہے لیکن پھر بھی مریخ ہمارے سیارے زمین سے بہت مختلف ہے اور اس حوالے سے پہلا فرق مریخ اور زمین میں کمیت اور ان کی کشش ثقل کا ہے۔ زمین کے مقابلے میں سطح پر مریخ کی کشش بہت کمزور ہے جو سیارہ زمین کے مقابلے میں 62 فیصد کمزور ہے۔ یعنی اگر سطح زمین پر آپ کا وزن 163 پونڈ ہے تو مریخ پر صرف 62 پونڈ رہ جائے گا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ:
زمین کے مقابلے میں مریخ کا کرہ ہوائی (ایٹموسفیئر) اوّل تو بہت ہلکا ہے اور دوسرے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی 98 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ زمینی کرہ ہوائی میں نائٹروجن سب سے زیادہ (78 فیصد)، اس سے کم آکسیجن (21 فیصد) اور مختلف گیسیں بہت کم مقدار میں شامل ہوتی ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ صرف 0.04 فیصد (400 پی پی ایم) کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مریخ کا تقریباً سارے کا سارا کرہ ہوائی صرف ایک ہی گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔
نظامِ شمسی کا سب سے بڑا پہاڑ:
زمین پر ماؤنٹ ایورسٹ بلند ترین پہاڑ ہے لیکن مریخ پر موجود مُردہ آتش فشاں ’’اولمپس مونز‘‘ (Olympus Mons) نظامِ شمسی میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا پہاڑ ہے جس کی اونچائی تقریباً 22 کلومیٹر اور اس کا قطر 600 کلومیٹر ہے۔ زمین سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اولمپس مونز کا رقبہ مرکزی فرانس (مین لینڈ فرانس) سے بھی زیادہ ہے۔ بعض ماہرین کو شبہ ہے کہ شاید اولمپس مونز اب بھی ایک سرگرم آتش فشاں ہے۔
قاہرہ کا ہم نام:
عربی میں مریخ کا ایک اور نام ’’النجم القاہر‘‘ (قہر و غضب کا ستارہ) بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 972 عیسوی کے فاطمی دورِ حکومت میں جب مصری شہر قاہرہ کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو اسی دن مریخ بھی طلوع ہورہا تھا اور آسمان پر خوب نمایاں تھا جسے دیکھ کر نئے شہر کا نام بھی مریخ کے روایتی نام پر ’’القاہرہ‘‘ رکھ دیا گیا۔
مریخ کا ایک دن اور ایک سال:
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ زمین پر ایک پورے دن (چوبیس گھنٹے) کے مقابلے میں مریخ کا ایک دن صرف 40 منٹ زیادہ طویل ہوتا ہے جس کا دورانیہ 24 گھنٹے اور 40 منٹ ہوتا ہے۔ مریخ کا ایک دن ’’سولر ڈے‘‘ یا مختصراً ’’سول‘‘ (SOL) بھی کہلاتا ہے۔ البتہ مریخ کا ایک سال ہماری زمین پر گزرنے والے 687 دنوں جتنا لمبا یعنی ایک سال، 10 مہینے اور 22 دن جتنا طویل ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کے گرد مریخ کا مدار، زمین کے مقابلے میں خاصا بڑا ہے جس کا ایک چکر لگانے میں مریخ کو یہ وقت لگ جاتا ہے۔
زمین سے قریب ترینؒ
ویسے تو مریخ کا زمین سے فاصلہ 7 کروڑ 78 لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے لیکن 2003 میں وہ موقعہ بھی آیا تھا جب مریخ اور زمین میں فاصلہ 60 ہزار سالہ تاریخ میں سب سے یعنی 5 کروڑ 60 لاکھ کلومیٹر رہ گیا تھا۔ ناسا کا کہنا ہے کہ 2287 سال بعد مریخ ایک بار پھر زمین کے اتنا قریب آئے گا۔
مریخ پر برف (پانی والی):
زمین کے مقابلے میں مریخ بہت ہی ٹھنڈا سیارہ ہے جہاں رات کے وقت درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی بہت کم رہ جاتا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ مریخ کے قطبین پر نظر آنے والی سفید ٹوپیاں دراصل جمی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ (ڈرائی آئس) پر مشتمل ہیں لیکن حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں بھی ویسی ہی منجمد برف ہے جیسی زمینی قطبین پر پائی جاتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مریخ پر برفانی عہد بھی جاری تھا جو آج سے صرف 4 لاکھ سال پہلے ہی ختم ہوا ہے۔ واضح رہے کہ زمین پر سابقہ برفانی عہد کا خاتمہ آج سے تقریباً 10 ہزار سال پہلے ہوا تھا۔
زندگی کا امیدوار:
دوربین کی ایجاد کے بعد مریخ کے اسرار ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے گئے۔ کبھی مریخ پر نہری نظام کا تصور سامنے آیا تو کبھی کسی کو مریخ پر انسانی چہرہ دکھائی دینے لگا کیونکہ کہیں نہ کہیں انسان کو امید تھی کہ مریخ پر ہمارے جیسی ہی کوئی زندگی موجود ہے۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس وقت مریخ پر زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ البتہ گزشتہ 20 سالہ مشاہدات سے اتنا ضرور اندازہ ہوا ہے کہ شاید اس سیارے پر کروڑوں یا اربوں سال پہلے زندگی اپنی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی تھی۔ تاہم ابھی اس خیال کی حتمی تصدیق ہونا باقی ہے۔
مریخ پر پانی:
ستمبر 2015 میں ماہرینِ فلکیات نے مریخ پر کچھ ایسے شواہد دریافت کیے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہاں بھی گرمیوں کے موسم میں نمکین پانی بہتا ہوگا۔ لیکن دوسری بہت سی چیزوں کی طرح یہ دریافت بھی اپنی حتمی تصدیق کی منتظر ہے۔
کریں گے اہلِ ہنر ’’مریخ پر‘‘ تازہ بستیاں آباد!
جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو اس وقت بھی انسان کے پاس اتنے طاقتور راکٹ اور خلائی جہاز موجود ہیں جو چند ماہ سے لے کر چند سال تک کے عرصے میں مریخ تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ اس ٹیکنالوجی کو مریخ تک انسانی رسائی کے قابل بنانے میں صرف ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ناسا، چین اور روس کے علاوہ نجی اداروں نے بھی مریخ تک جلد از جلد انسان بردار پروازیں بھیجنے کی تیاریاں تیز کردی ہیں۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ تک انسانی قدم 2030 کے عشرے تک پہنچ جائیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہاں پہلی انسانی بستی 2050 تک آباد بھی ہوجائے۔
No comments:
Post a Comment