امریکی کھرب پتی ایلن مسک نے ذرائع نقل وحمل میں انقلاب پیدا کرنے اور تیز رفتار سفر کو ممکن بنانے کے لیے چند برس قبل ہائپر لوپ کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
ہائپر لوپ در اصل بہت بڑے سلنڈر نما ڈبے ہیں جو مقناطیسی قوت کے سہارے بارہ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکیں گے۔ اگر یہ نظام پاکستان میں نصب ہوجائے تو کراچی سے لاہور کا سفر محض ایک گھنٹے میں سمٹ جائے گا۔ اس طرح یہ نظام ہوائی جہاز سے بھی تیز رفتار ہوگا ۔ ہائپر لوپ کا منصوبہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اسے حقیقت بننے کے لیے وقت درکار ہے۔ ایلن مسک کے انتہائی تیز رفتار سفر کو ممکن بنانے کے اس منصوبے کو دنیا بھر میں توجہ مل رہی ہے مگر اب یہ منصوبہ پس منظر میں جانے والا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کے دوست چین نے اس سے بھی تین گنا زیادہ تیز رفتار ٹرین بنانے کا اعلان کردیا ہے۔
اس ہائی اسپیڈ فلائنگ ٹرین کی رفتار چارہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی! ہوائی جہاز سے بھی تیز رفتار ٹرین تیار کرنے کی ذمے داری چائنا ایرو اسپیس اینڈ انڈسٹری کارپوریشن (CASIC) کو سونپی گئی ہے۔ کیسک سرکاری ادارہ ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’سپر سونک فلائنگ ٹرین‘ کے لیے ویکیوم ٹیوب کی ٹیکنالوجی کام میں لائی جائے گی۔ اس ویکیوم ٹیوب کے اندر مقناطیسی قوت کی مدد سے ٹرین کے پوڈ نما ڈبے آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ تیزی سے سفر کریں گے۔ کیسک کے مطابق یہ منصوبہ مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں فلائنگ ٹرین کی رفتار ایک ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچائی جائے گی اور پھر اسے مرحلہ وار چار ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ تک لایا جائے گا۔
چینی ادارے کا کہنا ہے کہ فلائنگ ٹرین ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقا کے ساٹھ سے زائد ممالک کو برآمد بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ چین تیز رفتار ٹرینوں کے معاملے میں تمام اقوام سے آگے ہے۔ دنیا کی تیز ترین بلٹ ٹرین چین میں بچھی پٹڑیوں پر دوڑتی ہے جس کی رفتار چار سوکلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ عام بلٹ ٹرینوں کی رفتار ڈھائی سو سے تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ چین میں تیز رفتار ٹرینوں کے لیے بچھائی گئی پٹڑیوں کی مجموعی لمبائی بیس ہزار کلو میٹر ہے۔ 2020 تک اس لمبائی میں مزید دس ہزار کلو میٹر کا اضافہ متوقع ہے۔ چین میں ہائی اسپیڈ ریلوے کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو تین سو ساٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے بچھایا گیا ہے۔
کیسک کی جانب سے سپرسونک فلائنگ ٹرین کے منصوبے کے آغاز اور تکمیل کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ تاہم ایلن مسک کے ہائپر لوپ سسٹم پر خاص پیش رفت ہوچکی ہے۔ اگست کے آغاز میں ہائپر لوپ ون نے پسنجر پوڈ کا پہلا آزمائشی سفر کام یابی سے مکمل کرلیا تھا۔ پسنجر پوڈ نے مقناطیسی قوت کی مدد سے ویکوم ٹیوب میں تین سعو میٹر کا فاصلہ طے کیا اور بتدریج رفتار میں کمی کرتے ہوئے مقررہ اسٹاپ پر آکر رک گیا۔ نیو اڈا کے صحرا میں کی جانے والی دوسری آزمائش میں پسنجر پوڈ نے نصف کلومیٹر کا فاصلہ مقررہ رفتار سے طے کیا۔ ایلن مسک نے اس کام یاب آزمائش کو نقل و حمل میں ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا تھا۔
امریکا کے بعد اب چین کے نقل و حمل کے نت نئے ذرائع تخلیق کرنے کی دوڑ میں شامل ہونے سے امید یہ کہ ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کا درمیانی فرق مٹ جائے گا، منزلیں مزید قریب آجائیں گی اور وقت کی بچت ہوگی۔
No comments:
Post a Comment